ثبات اک تغیرّ کو ہے زمانے میں
مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد (اور سابق وزیراعظم) نواز شریف نے چیف جسٹس کی طرف سے جوڈیشل مارشل لا نہ لگانے کے اعلان کو خوش آئندقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹ کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ عوامی رائے کو تسلیم کیا جائے، جمہوریت،آئین اور ریاستی استحکام بھی اِس امر کے متقاضی ہیں کہ اس فیصلے کو دِل و جان سے تسلیم کیا جائے، حکمرانی کا حق سونپنا پاکستان کے عوام کا اختیار ہے اس کا اظہار وہ اپنے ووٹ سے کرتے ہیں، جب عوام کی رائے کو دِل و جان سے تسلیم نہیں کیا جاتا اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام کی رائے کو کچل دیا جائے،عوام کی رائے پر اپنی رائے مسلط کر دی جائے اور اپنی پسند کے حکمران تراشے جائیں،اس عمل کو عوام اور اُن کے ووٹ کی توہین کہا جا سکتا ہے۔پاکستان کی پوری تاریخ اِس تماشے سے بھری پڑی ہے،70 سال میں مسلسل ووٹ کی بے توقیری کی جا رہی ہے، آنے والے دِنوں میں مُلک میں بہت بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں، سب کو اس سے بچنا چاہئے۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ سیمینار سے خطاب اور احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ووٹ کی تقدیس کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی مُلک کی عمر ہے، ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت اِس معاملے کو اٹھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نام اور رہنماؤں کے چہرے ضرور بدلتے رہے ہیں۔ مولوی تمیز الدین جب ایک بیورو کریٹ گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں لے کر گئے تھے تو وہ اپنے انداز میں ووٹ کی تقدیس کا مقدمہ ہی لڑ رہے تھے، وہ اس اسمبلی کے سپیکر تھے جسے گورنر جنرل نے اپنے حکم کے تحت توڑ دیا تھا۔سندھ ہائی کورٹ نے اُن کی درخواست منظور کر لی اور اسمبلی بحال کرنے کا حکم دیا۔ البتہ جب مرکزی حکومت نے اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو چیف جسٹس محمد منیر نے نظریۂ ضرورت کے تحت سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، آج تک ماہرین آئین و قانون اس فاضل چیف جسٹس کے فیصلے کو محل ِ نظر قرار دیتے رہے ہیں۔ جسٹس منیر کی بطور چیف جسٹس قابلیت اور لیاقت اپنی جگہ، تاہم شاید ہی کوئی قانون دان ایسا ہو جس نے کبھی برسر عام اس فیصلے کی کھل کر تحسین کی ہو، جس کسی نے بھی اِس پر رائے زنی کی اُس نے یہی کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں ایک ایسے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے عدلیہ اور سیاست کا رُخ غلط سمت میں موڑ دیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جسٹس منیر یہ فیصلہ نہ کرتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی اور ووٹ کی جس تقدیس کا آج رونا رویا جاتا ہے شاید ہم ایسا نہ کر رہے ہوتے اور بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی جمہوریت اپنا ایک روشن راستہ متعین کر کے آگے بڑھ رہی ہوتی،لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کی سیاست آج تک ووٹ کی تقدیس کے ماتم سے فارغ نہ ہوئی، کبھی ایک سیاسی جماعت ایسا کرتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔
اِسی وجہ سے ہمیں سیاسی جماعتیں کبھی میثاق جمہوریت کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی متحدہ محاذ یا مجالسِ عمل بنا کر جمہوریت کی بحالی کی تحریکیں چلاتی نظر آتی ہیں، لیکن غیر جمہوری قوتوں نے اپنے اپنے انداز میں ہر عہد اور ہر قسم کے حالات میں جمہوریت کا راستہ روکا ہے،جمہوری تحریکوں کو اگر کبھی کامیابی ملی بھی تو جزوی اور مختصر عرصے کے لئے اور جونہی اس پودے نے جڑ پکڑنا شروع کی کہیں سے بادِ صر صر کا تھپیڑا آیا اور ان نرم و نازک کونپلوں کو اڑا کر لے گیا، دوبارہ اس پودے کو کاشت کرتے کرتے بعض اوقات برسوں بیت گئے،پھر جونہی اچھا موسم اور وافر پانی میسر آیا اس پودے کو دوبارہ کاشت کیا گیا اور مسموم ہواؤں سے اسے بچانے کی کوشش بھی کی گئی،لیکن تمام تر حفاظت و نگہداشت کے باوجود زیادہ عرصے تک ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ووٹ کی تقدیس کے نام پر سیمینار منعقد کرانے پر مجبور ہیں،حالانکہ اس وقت ضرورت تھی کہ ہم اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر قوموں کی برادری میں سینہ تان کر کھڑے ہوتے اور جمہوری مستقبل کو روشن کرنے میں مصروف ہوتے، جمہوریت اور سیاست کی سمت درست ہوتی اور اسے ناسازگار موسموں سے بار بار پالا نہ پڑا ہوتا تو شاید آج ایسے سیمیناروں کی ضرورت نہ ہوتی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کی سیاسی جدوجہد میں جماعتیں اور چہرے بدلتے رہتے ہیں اور ان جماعتوں میں کام کرنے والے سیاسی رہنما اور کارکن بادِ مخالف کے تھپیڑوں سے حواس باختہ ہو کر اپنی جدوجہد کو راستے میں ہی چھوڑ کر یا تو گوشہ گیر ہو جاتے ہیں یا سیاسی مسافروں کے اس ہجوم میں شامل ہو جاتے ہیں، جس پر عافیت کی چھتری تنی ہوئی ہوتی ہے اس وقت جو جماعتیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسے سیمیناروں اور جدوجہد سے باہر ہیں اور ٹھنڈی چھاؤں میں سستا رہی ہیں اور بظاہر مطمئن ہیں کہ اُنہیں ایسی جاں گسل جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے۔عین ممکن ہے کہ چند برس بعد وہ بھی اس کی ضرورت محسوس کریں اور خود بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں تاہم اس وقت وہ جہاں ہیں وہیں خوش ہیں،ہماری دُعا ہے کہ وہ تادیر خوشیوں کی اِس فضا میں زندگی بسر کریں،لیکن اگر ہم ماضی کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہماری یہ دُعا زیادہ مستجاب ہوتی نظر نہیں آتی،تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں بہت سے نئے چہرے ووٹ کی تقدیس کا پرچم اٹھانے پر مجبور ہوں گے،جو آج مطمئن ہیں وہ ہمیشہ مطمئن نہیں رہیں گے، جو آج دِل گرفتہ ہیں اُن کی دِل گرفتگی بھی دائمی نہیں ہے، انسانوں کے درمیان دن آتے اور بدلتے رہتے ہیں،ذاتِ باری تعالیٰ اِن دنوں کو بدلتی رہتی ہے،زمانے میں کبھی حالات ایک جیسے نہیں رہتے،ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، یہی زمانے کا دستور ہے، آج جن سروں پر عافیت کی چھتریاں تنی ہیں، کل جب یہ باقی نہ رہیں گی، پھر وہ اپنے انداز میں ووٹ کی تقدیس کا پرچم اٹھانے پر مجبور ہوں گے،اِس لئے بہتر یہ ہے کہ آج ہی اس پھریرے کو اونچی ہواؤں میں لہرانے دیا جائے۔ جمہوریت کا مفاد ووٹ کی تقدیس سے جڑا ہوا ہے۔