حضرت علامہ ابوالحسناتؒ ، ان کی تقلید لازم ہے!

حضرت علامہ ابوالحسناتؒ ، ان کی تقلید لازم ہے!
حضرت علامہ ابوالحسناتؒ ، ان کی تقلید لازم ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شعبان المعظم کا مہینہ شروع ہو گیا۔ یہ وہ بابرکت ماہ ہے جو آنے والے مبارک دنوں کی نوید دیتا اور ہم گناہ گار اس مبارک مہینے کے استقبال کی تیاریاں کرتے ہیں کہ اس کا اختتام رمضان المبارک کی شروعات ہے۔

یہ مہینہ اس لحاظ سے استقبال رمضان ہی کہلائے گا، تاہم ایک طرف یہ اطمینان اور اب انتظار ہے تو دوسری طرف اسی کا چاند ایک بڑی غم انگیز یاد بھی لے کر آتا ہے۔

آج 2شعبان المعظم ہے اور ہجری سال کی اس تاریخ کو ہمارے بزرگ علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی یادیں چھوڑ گئے، حضرت کے ساتھ ہی ان کے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری بھی یاد آتے ہیں کہ حضرت علامہ کی واحد نرینہ اولاد تھے اور اب وہ بھی اللہ کے حضور ہیں۔

وہ لاولد ہی رخصت ہوئے ۔ یوں حضرت علامہ ابوالحسنات کی نسل سے کوئی نہیں، البتہ حضرت صاحب کی صاحبزادی اور خلیل قادری صاحب کی ہمشیرہ اور ان کی اولاد ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے ہیں۔

محترمہ صاحبزادی کی شادی گجرات کے سید احمد شاہ سے ہوئی اور ان کے بڑے صاحبزادے آج کل جامع مسجد وزیر خان کی خطابت پر فائز ہیں اور وہی حضرت علامہ ابوالحسنات کی سالانہ یاد کا اہتمام کرتے ہیں ورنہ حضرت کی جماعت (نام کے حوالے سے) پر قابض حضرات کو تو یہ تک یاد نہیں کہ جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد حضرت علامہ ابوالحسنات نے رکھی اور ان کی حیات میں یہ جماعت بہت ہی معتبر رہی۔ سیاست سے زیادہ واسطہ نہ تھا لیکن دینی اور ملی خدمات میں کسی سے کم نہ تھی۔


اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ علامہ ابوالحسنات کے والد گرامی حضرت دیدار علی شاہ الور (بھارت) سے تشریف لائے اور انہوں نے اندرون دہلی دروازہ میں قیام کیا۔

یہیں مسجد میں وعظ و تدریس کا سلسلہ جاری ہوا اور مدرسہ حزب الاحناف کی بنیاد رکھی گئی۔ حضرت دیدار علی شاہ کا مزار آج بھی اسی مسجد میں موجود ہے، ان کے بڑے صاحبزادے سید محمد احمد قادری تھے جو ابوالحسنات کے لقب سے مشہور ہوئے اور جامع مسجد وزیر خارن کی خطابت ان کو تفویض ہوئی۔ ان کے چھوٹے بھائی ابوالبرکات سید احمد والد کے ساتھ مسجد اور مدرسے کے انتظام میں مصروف رہے۔


یہ اکابرین ملت ان اکابر کی نسل اور اقربا میں سے ہیں جنہوں نے بنارس سنی کانفرنس میں قائداعظم محمد علی جناح اور قیام پاکستان کی حمائت کی اور باقاعدہ قرارداد منظور کی تھی۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی علامہ ابوالحسنات کو خیال ہوا کہ یہاں بنارس سنی کانفرنس ہی کے افکار کے حوالے سے جماعت کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے مشاورت کے بعد جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد رکھی اور وہ اس جماعت کے تاسیسی صدر منتخب ہوئے۔

اس کے بعد کارکردگی اور بزرگی کے حوالے سے وہ صدر منتخب ہوتے رہے اور تادم حیات صدر ہی رہے۔ ان کی وفات کے بعد اس جماعت پر زوال آیا اور اختلافات کے باعث پہلے دو حصوں میں بٹی اور پھر وقتاً فوقتاً تقسیم در تقسیم ہوتی رہی اور آج تقریباً چار یا پانچ دھڑے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ علامہ ابوالحسنات صاحب علم اور پرہیز گار بزرگ تھے۔

اللہ نے ان کو بصیرت اور سیرت عطاء کی اور وہ حضور اکرمؐ کے سچے پیرو کار تھے ، نرم، حلیم الطبع اور برداشت والے بزرگ تھے سخت سے سخت بات کا بہت شفقت سے جواب دیتے، جامع مسجد وزیر خان میں نماز جمعہ کے علاوہ نماز فجر بھی ادا کرتے اور نماز کے بعد درس بھی دیتے تھے۔ آج بھی ہم جیسے بہت دوست ہوں گے جو اس دور میں مستفید ہوتے رہے۔

اس درس میں بنیادی طور پر قرآن مجید کی تفسیر بیان کی جاتی، زیادہ توجہ حقوق العباد اور پختہ عقیدہ پر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور ہر قسم کے گناہ اور آزار سے گریز پا ہوں۔

علامہ ابوالحسنات خود سید تھے اور عشق رسولؐ میں غرق رہتے تھے۔ اس دور میں جو پچاس کی دہائی کا ہے۔ فتنہ قادیانیت نے پر پرزے پھیلائے تھے چنانچہ اکابرین ملت اسلامیہ نے باہم اکٹھے ہو کر جدوجہد کا عزم کیا۔

تمام مکاتب فکر نے اکٹھے ہو کر کل جماعتی یا کل پاکستان مجلس تحفظ ختم نبوتؐ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی قطعی متفقہ طور پر حضرت علامہ ابوالحسنات کو سربراہ چنا گیا اور وہ اس عہدے پر بھی تاحیات رہے کہ ان کی ذات پر اعتماد اور اتفاق ہی بہت تھا۔


اس مجلس عمل کے قیام کے ساتھ ہی جدوجہد بھی تیز ہوئی۔ اجتماعات سے بات مظاہروں تک پہنچی۔ اگرچہ تنظیم کا دفتر مزار شاہ محمد غوث کے سامنے سرکلر روڈ پر تھا تاہم جدوجہد کا مرکز جامع مسجد وزیرخان ہی تھی۔ حکمرانوں کی طرف سے مطالبے میں تاخیر ہوتی رہی اور تحریک زور پکڑتی رہی۔ ہم بھی مظاہروں اور جلوسوں میں شریک ہوتے تھے۔

جلسے دہلی دروازہ اور موچی دروازہ کے باہر باغات میں ہوتے اور جلوس بھی یہیں سے نکلتے تھے۔ پھر وہی ہوا کہ مظاہرین پر پولیس تشدد شروع کر دیا گیا اور بات بگڑتی چلی گئی، حتیٰ کہ نوجوانوں نے شہادت کا درجہ بھی پایا، اسی دور میں ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا گیا، جسے منی مارشل لاء کہتے ہیں کہ یہ لاہور کی سطح تک نافذ کیا گیا، اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ تھے اور یہ 1953ء کا زمانہ تھا، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر معروف شخصیت جنرل اعظم خان تھے، اس دور کی تحریک کے چشم دید حالات اور واقعات ہم کو اب بھی یاد ہیں کہ نوجوان سفید بنیان پر کلمہ طیبہ لکھا کر اندرون دہلی دروازہ سے نعرے مارتے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے نکلتے اور کوتوالی (بیرون دہلی دروازہ) کی چھت سے رائفل چلتی اور گولی کھا کر کلمہ پڑھتے۔ نعرہ رسالتؐ لگاتے شہید ہو جاتے تھے۔


قصہ مختصر یہ تحریک اپنے عروج پر رہی، گرفتاریاں ہوئیں، علامہ ابوالحسنات، سید مودودی، مولانا عبدالستار نیازی، امین الحسنات سید خلیل احمد قادری سمیت اکابرین ملت اور عاشقان رسولؐ سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار ہوئے۔

فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئیں۔ سید مودودی، مولانا عبدالستار نیازی اور امین الحسنات سید خلیل احمد قادری ان شخصیات میں سے تھے جن کو موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

بعد میں مذاکرات اور پھر رہائی ہوئی تھی اس تحریک کا پھل 1974ء میں ملا، جب قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دے دیا، اس وقت جمعیت علماء پاکستان کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے جو قومی اسمبلی کے رکن اور بھٹو برسراقتدار تھے۔


آج کے اس دور میں ان بزرگان دین کو یاد کرنا ضروری ہے کہ ہم حیرت میں گم ہیں، آج کی جمعیت اور تحریکوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا اور غم زدہ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ان بزرگوں نے جو قربانیاں دیں وہ آج کہاں ہیں؟ ان کو کون یاد کرتا ہے اور جس اخلاق، تہذیب اور پختہ عزم و عقیدے کی تعلیم وہ دیتے تھے وہ کیا ہے۔

کیا جمعیت علماء پاکستان کے دعویدار اپنے اس بزرگ بانی (تاسیسی) صدر کی بھی یاد منا سکتے ہیں؟ اور عاشقانِ رسالتؐ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کر سکتے ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -