اپ سیٹ سیاست اوراگلا سیٹ اپ
سیاست کی انڈرولڈ میں بڑی ہلچل پیدا ہورہی ہے۔چھوٹے بڑے پائے کے سیاستدان تیزی سے پارٹیاں بدل رہے ہیں ،جو اپنی پارٹی چھوڑتا ہے اس پر لوٹے اور گھوڑے کی مہر لگا دی جاتی ہے اور اسکی پارٹی کی جانب سے بھی بیانیہ آجاتا ہے کہ اسکے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہوسکتا ہے کسی سیاسی جماعت کو اپنی پکّی سیٹوں والے پارلیمانی سیاستدانوں کے جانے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو لیکن حقیقت میں انہیں یہ جھٹکا کتنا زور دار لگتا ہے ،اسکا ادراک ہر سیاسی جماعت کرتی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ جانے والوں کو روک نہیں سکتی۔
پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو بلاول زرداری بھٹو نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی حالانکہ یہ بات ہرنباض سیاست کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن اور ایسے پکی سیٹوں والے سیاستدانوں کا آمدہ قومی انتخابات سے قبل از وقت اڑنچو ہوجانا کس تبدیلی کی نوید ہے اور اقتدار کس کے ہاتھ میں جانے یا دئے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔کچھ سوچ کر، کچھ طے کرکے ہی پارٹیاں بدلی جارہی ہیں،پچھلی بار الیکشن میں ندیم افضل چن کو تھاپڑا نصیب نہیں ہواتھا مگر اس بار پورے تیّقن کے ساتھ انہیں امید دلائی گئی ہے کہ وہ پارلیمان میں پہنچ جائیں گے۔خیر یہ تو بعد میں دیکھا جائے گا کہ اس تھاپڑے کے صلے میں کہیں انہیں سیاسی تھپڑ تو نہیں پڑگیا کیونکہ انکے مقابل جناب پیر امین الحسنات جیسے نون لیگ کے امیدوار ہیں جنہوں نے گزشتہ سیاسی دنگل میں چن صاحب کو پھونک ڈالا تھا۔
دس اپریل کو جب مجھے میرے ’’مرشد‘‘ نے ندیم افضل چن کی پی ٹی آ ئی جوائن کی خبر دی تھی،میں نے اسکو ہوا میں اڑا دیا تھا اور چودہ اپریل کو سوال کیا کہ آپ بھی بس ’’چھڈو‘‘ ہیں سرکار ۔پیغام آیا کہ نہیں ذرا چودھری نثار کا پروگرام تاخیر کا شکار ہوگیا ہے ورنہ دونوں نے اکٹھے بڑا دھماکہ کرنا تھا۔میں نے کہا کہ چلو یہ بھی دیکھ لیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ میں مرشد کی باتوں پر ذرا کم ہی یقین کرتا ہوں ۔جیسا کہ انہوں نے پچھلے سال پورے وثوق سے خبر دی تھی ن لیگ کا سب سے پہلا جھٹکا خواجہ سعد رفیق دیں گے جس پر میری تو ہنسی چھوٹ گئی ۔چند ماہ گزرے تو بولے خواجہ صاحب ابھی انتظار کررہے ہیں،ذرا قدم بڑھاو نواز شریف کی مہم تیز ہوجائے اور میاں صاحب اندھی،دلدلی ،بند گلی میں مزید دھنس جائیں ،پھر یہ بھی آجائیں گے ۔ان کے پاس جواز ہوگا’’دسو میاں صاحب فیر میں کی کردا‘‘
ابھی آج کی بات ہے ۔میں نے انہیں مبارک دی اور کہا کہ آپ کی تازہ پیش گوئی بالاخر درست ثابت ہوئی ہے اور ندیم افضل چن تو پی ٹی آئی میں آگئے ہیں ،اب آگے کیا ہوگا،چودھری صاحب کا ارادہ کیا ہے۔جواب دیا کہ سو فیصد کنفرم سمجھیں وہ ن لیگ میں نہیں رہیں گے ۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہ وقت آنے والا ہے جب دونوں بھائیوں کے سوا بہت سے پکّی سیٹوں والے اڑنچو ہوجائیں گے ۔
جہاں سیاست ہوتی ہے وہاں ایسی مفروضہ کہانیاں بھی ہوتی ہیں ۔کچی پکی سیٹوں کا حساب جوڑا جاتا ہے ۔بڑے بڑے دعوے بھی کئے جاتے ہیں ،خیالی سیٹ اپ بھی بنا لئے جاتے ہیں ۔ایسا ہی سیٹ اپ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کا بھی بنایا جارہا ہے،تخمینے لگائے جارہے ہیں۔جدوجہد کی جارہی ہے ۔مرشد کے بقول انتخابات وقت پرہونے کا امکان زیادہ ہے لیکن اس بار کوئی پارٹی بڑا ٹرن اوور نہیں لے سکے گی۔مخلوط حکومت بنے گی۔اگر کسی نے بھی نواز شریف کی طرح طیب اردگان بننے کی کوشش کی ،اسکا پارلیمانی جھنڈا اکھیڑ دیا جائے۔ اکھیڑنے والے پارلیمنٹ میں ہی ہوں گے ۔بلوچستان اور سینٹ میں پانسہ پلٹا جاسکتا ہے تو قومی اسمبلی میں بھی اگلے پانچ سال تک کئی بخت آوروں کو تخت ناپائیدار پر آزمایا جاسکتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔