الشفاء انٹرنیشنل اور میت کے نام پر بھیک مانگنے کا مکروہ دھندہ

الشفاء انٹرنیشنل اور میت کے نام پر بھیک مانگنے کا مکروہ دھندہ
 الشفاء انٹرنیشنل اور میت کے نام پر بھیک مانگنے کا مکروہ دھندہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے کالم کا عنوان دو مختلف موضوعات سے جڑا ہوا ہے، دِل تو کر رہا تھا کہ صرف الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد پر اٹھنے والے سوالات پر لکھوں، مگر لاہور کے علاقے میں بھیک مانگنے والے کی گھناؤنی حرکت نے مجبور کر دیا کہ اس کا بھی تذکرہ ضرور کیا جائے، ہم من حیث القوم اتنے بے حس ہو چکے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں بے حسی کسی ایک شعبہ پر محیط نہیں رہی، خود غرضی مفادات کی دوڑ چاروں اطراف سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، خاندانوں کے خاندان اس معاشرتی ناسور کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، بیٹے نے اگر باپ سے پیسے نہ لینے ہوں تو شاید وہ بھی اپنی مصروفیات میں سے باپ کے لئے وقت نہ نکال سکے۔


آئے روز ہسپتالوں پر لکھنے گئے کالم اور چینلوں پر چلنے والی کہانیاں کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں، آج مختصر انداز میں الشفاء انٹرنیشنل ہاسپٹل اسلام آباد کا تذکرہ کرنا ہے اور وہ بھی اپنے محسن اور رحم دِل شخصیت مشتاق احمد چٹھہ کی زبانی جنہیں جھوٹ سے سخت نفرت ہے اللہ نے اُن کے دِل کو نرم بنانے کے ساتھ ساتھ دینے والا بنایا ہے، ذاتی طور پر آج تک الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال کی صرف شہرت ہی سُنی ہے یا یہ سنا ہے امیروں کا بہترین ہسپتال ہے، دُنیا کے تجربہ کار ڈاکٹرز وہاں موجود ہوتے ہیں اس سے زیادہ ہمارا اس منفرد ہسپتال سے تعلق نہ ہے، بابا چٹھہ صاحب اسلام آباد کے رہائشی ہیں۔

عمرہ اور حج کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا وسیع کاروبار سعودیہ میں ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت حرم مکہ، حرم مدینہ میں گزرتا ہے۔ کئی کئی ہفتے بعد پاکستان میں ان کا آنا ہوتا ہے ان کی بیگم صاحبہ بھی نیک سیرت اور درویش صفت خاتون ہیں وہ بھی بابا چٹھہ صاحب کے سعودیہ میں موجودگی کے دوران زیادہ وقت حرم شریف مکہ مکرمہ اور مدینہ میں مسجدِ نبوی میں گزارتی ہیں۔ گزشتہ دِنوں اپنے صاحبزادے کی شادی کے سلسلے میں دونوں بزرگ اسلام آباد آئے ہوئے تھے،ہماری خواہش تھی کہ وہ لاہور میں آئیں، شادی کی مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکے۔ البتہ گزشتہ ہفتے چٹھہ صاحب نے مجھے تحریری طور پر لکھا کہ بیگم کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے، مَیں الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں ہوں، بیگم کی صحت یابی کے لئے دُعا کریں اور الشفاء انٹرنیشنل کی حالت زار پر لکھیں جہاں بڑا ظلم ہو رہا ہے۔


مشتاق چٹھہ صاحب اسلام آباد کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے ہسپتال پر لکھنے کا حکم دے رہے تھے اور میرے ذہن میں لاہور کے ہسپتال گردش کر رہے تھے، جن کو بدلنے کے لئے سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے عرصہ تک ڈنڈا اٹھائے رکھا، صبح، دوپہر، شام چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا، شہباز شریف جیسا نڈر شخص بھی ڈاکٹر مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر پیچھے ہٹ گیا، اب لاہور میں کسی بھی ہسپتال کی ایمرجنسی دیکھ لیں زیادہ بیڈ پر دو دو تین تین مریض لیٹے ہوئے ہیں۔

چٹھہ صاحب کا کہنا ہے الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں بھی ، دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، ہر جگہ سفارش چل رہی ہے میرٹ کے نام پر میرٹ کا قتل عام جاری ہے، فرماتے ہیں بیگم صاحبہ کے پیٹ میں شدید درد کی وجہ سے انہیں ایمرجنسی میں الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال لے کر گیا،سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی بھاری فیس ادا کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بیگم کو دیکھا اور بے تحاشا ٹیسٹ لکھ دیئے،چار گھنٹوں میں20ہزار کے ٹیسٹ اور رپورٹس کروانے کے بعدہمیں واپس گھر بھیج دیا گیا، چار گھنٹے گھر گزارنے کے بعد افاقہ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ الشفاء آئے تو دوبارہ 20ہزار کے ٹیسٹ،ادویات اور مزید رپورٹس آنے کا انتظار لئے گھر جا رہے ہیں۔

ایک ہفتے میں لاکھوں روپے خرچ کر چکے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی نئے پاکستان میں ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، جیسے ایسے اوورسیز پاکستانی جو نہ صرف بڑے ٹیکس دینے والے ہیں، بلکہ دیارِ غیر میں بیٹھ کر بھی دن رات وطنِ عزیز کی سلامتی کے لئے دُعا گو رہتے ہیں، ہسپتالوں میں ان کے لئے بھی سفارش کے بغیر کوئی شنوائی نہیں ہے۔ ہے کوئی نئے پاکستان میں ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے والا، دوسرا ہولناک واقعہ جس کو بطورِِ عبرت تحریر کر رہا ہوں جو ہماری معاشرتی اقدار کے لئے بڑا چیلنج اور حکومتی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔

یہ معمولی واقعہ نہیں ہے اس واقع سے جڑی ہوئی بہت سی کڑیوں کو ملانے کا وقت آ گیا ہے،بادامی باغ کے رہائشی شجاع الرحمن کے نومولود بیٹے جس کو تین دن پہلے دفن کیا گیا تھا الیاس نامی بھکاری نے تازہ قبر سے نکال کر گود میں اٹھا کر چوک میں رکھ کر بھیک مانگنا شروع کر دی،اندھیر نگری ہے،غضب خدا کو دعوت دی جا رہی ہے۔ معلوم ہوا ہے شجاع الرحمن اپنے فوت ہونے والے نومولود بچے کے قل کرنے کے بعد دُعا کے لئے قبرستان آیا تو دیکھا قبر نہ صرف میت سے خالی ہے، بلکہ کھدائی بھی تازہ کی گئی ہے۔


گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی لاہور سمیت پنجاب بھرمیں بھیک مانگنے والوں کے خلاف گرینڈ اپریشن کیا ہے،مگر صرف دکھاوے اور اخبارات کی خبروں تک۔ گزشتہ25سال سے لاہور کے ہر چوک پر قابض مرد و خواتین بھیس بدل بدل کر بھیک مانگنے میں مصروف ہیں، تازہ قبروں کو کھودنا بھی اب نیا نہیں رہا۔


مگر کس سے فریاد کی جائے، قہر خدا کا اللہ سے توبہ کرتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، ڈی سی او لاہور کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کے لئے ایسے واقعات بڑے چیلنج سے کم نہیں ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی بھکاری مافیا کے خلاف میدان میں آنا ہو گا، زندہ افراد کے ساتھ اب مرنے والوں کو بھی مافیا بخشنے کے لئے تیار نہیں ہے؟

مزید :

رائے -کالم -