ماحولیاتی آلودگی موت و بیماریاں بانٹنے لگی

 ماحولیاتی آلودگی موت و بیماریاں بانٹنے لگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب نعیم مصطفی صاحب 
کرائم سٹوری شیخوپورہ 
(محمد ارشد شیخ  بیوروچیف)
بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کے باعث متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے  اضافہ نہ تو حکمرانوں کیلئے باعث تشویش ہے نہ متعلقہ ادارے اس حوالے سے باخبر یا خیر اندیش دکھائی دے رہے ہیں عملاً شیخوپورہ کے لاکھوں باسیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، انڈسٹریل سیکٹر کو پروان چڑھانے کی خاطر دھڑا دھڑ انڈسٹری کے قیام کی اجازت تو دی گئی مگر ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کو خاطر میں نہ لایا گیاجس کا نتیجہ شیخوپورہ کے باسیوں کو موذی امراض میں مبتلا ہو کر موت کی منہ میں جانے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ ادارو ں کوکرپشن کی لعنت سے پاک کرنے کا وزیر اعظم عمران خان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جس کی بنیادی وجہ محکمہ ماحولیات سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے بعض افسران و ملازمین کی صنعتی یونٹس کے مالکان سے مبینہ ملی بھگت اور منظم بھتہ خوری ہے جس کا اندازہ ماہانہ لاکھوں روپے لگایا گیا ہے جو کرپٹ افسران و ملازمین کی جیبوں کی نذر ہورہا ہے اور شہریوں کو ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہونے کی صورت میں اسکا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف طبی تحقیق دانوں کے مطابق پاکستانی شہریوں کو لاحق اکثریتی بیماریوں کا تعلق ماحولیاتی آلودگی سے ہے جس میں گزشتہ دو دہائیوں میں زبردست اضافہ سامنے آیا ہے اور آلودگی کے تجزیاتی عناصر آبی و فضائی اور زمینی آلودگی بیان کئے گئے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نہ ہم آبی و فضائی طور پر آلودگی سے محفوظ ہیں اور نہ ہی ہمیں زمینی آلودگی سے تحفظ حاصل ہے لہذا ہمارے ہاں کے یہ تینوں بنیادی جزو کائنات اس قدر آلودہ ہوچکے ہیں اب حیات انسانی کو دوام بخشنے و لائق استفادہ ہونے کی بجائے موذی و جان لیوا امراض لاحق کرنے کے اعتبار سے انسانی صحت گرہن زدہ کرنے کا موجب ہیں تاہم اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ صنعتی مالکان ہی در حقیقت اجتماعی انسانی صحت کے دشمن اور بدترین ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ہیں انہی کی سنگ دلی اور متعلقہ اداروں کی ان سے ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ ماسوائے دوچارصنعتی یونٹس کے دیگر سینکڑوں صنعتی یونٹس میں سے کسی میں بھی ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب نہ ہیں جس کے باعث ان صنعتوں کا زہریلہ دھواں نہ صرف موت بانٹ رہا ہے بلکہ نالیوں نالوں کے ذریعے مقامی راجباہوں اور نہروں میں بہایا جانیوالااستعمال شدہ آلودہ پانی آبی حیات اور فصلوں کیساتھ ساتھ حیات انسانی کیلئے بھی نہایت نقصان دہ بیان کیا جارہا ہے، اسی طرح بعض صنعتی یونٹس میں سے اڑنے والی راکھ او ر بشمول دیگر مضر صحت کیمیکلز کا آب و ہوا میں تحلیل ہونا بھی فضائی آلودگی میں بڑھاوے کا کلیدی ذریعہ ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث آج ضلع شیخوپورہ ماحولیاتی آلودگی کے شکار اضلاع کی فہرست میں نمایاں قرار دیا جارہا ہے، ضلع میں 800سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس، کارخانے، فیکٹریاں اور شیلرز قائم ہیں ذرائع کے مطابق ان میں سے فقط 5صنعتی یونٹس ایسے ہیں کہ جن میں ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب ہیں جبکہ دیگر میں سے اکثریتی تعداد ایسی فیکٹریوں اور کارخانوں کی ہے جن کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ انکے مالکان نے نہ تو اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کیمیکل زدہ پانی کی درست ڈھنگ سے پروسیسنگ اور اخراج کیلئے کسی طرح کا موثر اقدام اٹھایا ہے اور نہ ہی فاضل مادوں کو تلف کرنے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کئے ہیں جبکہ محکمہ ماحولیات کی طرف سے ان صنعتوں کو ضلع میں پائی جانیوالی ماحولیاتی آلودگی کا سبب قرار دیا گیا ہے جس کی تصدیق محکمانہ ذرائع کی طرف سے بھی کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ ماحولیاتی آلودگی کے بڑھاوے کے براہ راست ذمہ دار ان صنعتوں یونٹس کے مالکان ہیں ذرائع کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کاروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر خدا خدا کرکے کسی صنعتی یونٹ کے خلاف کاروائی کی بھی جاتی ہے تو کیس لمبے عرصے تک لٹکے رہتے ہیں جن کا فیصلہ جلد نہ ہونے سے صنعتی یونٹس میں ماحولیاتی آلودگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور فیصلے آ جائے تو بھی تھوڑا بہت جرمانہ ادا کرکے صنعتی یونٹس کے مالکان اور انتظامیہ پلہ جھاڑ لیتی ہے مگر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کی طرف سے توجہ قطعی دی نہیں جاتی جس سے بدستور حالات تشویش ناک اور عوام قابل رحم حالت میں ہیں خصوصاً لاہور روڈ، فیصل آباد روڈ، مریدکے روڈ، سرگودھا روڈ اور گوجرانوالہ روڈ کے وہ رہائشی علاقے جن کے قریب صنعتیں واقع ہیں ان کے باسیو ں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جنہیں روزانہ سانس لینے کی شکل میں زہر آلود ہوا پھیپھڑوں میں بھرنی پڑرہی ہے اور یہی حال پانی کا ہے جو شدید آلودہ ہونے سے زہر آلود ہوچکا ہے جسے پینا مختلف موذی امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے جبکہ زمینی آلودگی بھی قطعی کم نہیں نہریں اور راجباہیں گندے پانی کی نہروں کا منظر پیش کررہی ہیں جن سے استفادہ کرنے والے کسانوں کی فصلیں تباہ حال اور اس زہر آلود پانی کو پینے سے مویشی آئے روز مررہے ہیں اس سے بھی براحال عوام کا ہے جو مختلف امراض کا شکار ہو کر موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے مطابق زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں،ملوں اور کارخانوں میں رائس ملز، فلور ملز، پیپر ملز، اسٹیل ملز،ٹیکسٹائل ملز، گتہ ملز، مارسوسیکل فیکٹری اور ٹائل فیکٹریاں شامل ہیں، محکمہ ماحولیات جسے خاصے اختیارات حاصل ہیں وہ بھی چین کی بانسری بجارہا ہے نہ تو موثر کاروائیاں کی جارہی ہیں نہ صنعتی یونٹس کے مالکان کی طر ف سے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی عدم تنصیب کے حوالے سے اعلیٰ حکام کو باخبر کرکے کسی بڑی کاروائی کی راہ ہموار کرنے میں ضلعی آفس کا کوئی کردار نظر آرہا ہے، ذرائع کے مطابق محکمہ ماحولیات شیخوپورہ کے بعض سابق و حاضر افسران و ملازمین کے اثاثے نیب کے تحت جانچے جائیں تو کرپشن و رشوت ستانی کے تحت جمع کی گئی دولت کے حوالے سے ہوشرباء انکشافات متوقع ہیں کیونکہ یہاں قائم صنعتی یونٹس کے مالکان  مبینہ طور پرمحکمہ ماحولیات، محکمہ لیبر اور سول ڈیفنس سمیت دیگر بعض متعلقہ محکموں کے بعض افسران و ملازمین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جن کی آشیر باد سے ان صنعتی یونٹس کوانسانی صحت سے کھل کھیلنے کے مواقع حاصل ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ضمن میں ڈی سی شیخوپورہ کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے جس کا سبب ذرائع نے ان فیکٹری مالکان کا مبینہ با اثر ہونا بیان کیا ہے جس کے باعث محکمہ ماحولیات اس تیزی سے بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کی موثر روک تھام سے مبینہ طور پر قاصر اور خاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہے، ذرائع کے مطابق ضلع میں 10فیکٹریاں ایسی بھی ہیں جن میں ٹائرز جلا کر ان کا تیل نکالا جارہا ہے، اسی طرح مختلف مقامات پر قائم بعض کارخانوں میں استعمال شدہ و ناکارہ تیل ری پروسسنگ کے ذریعے قابل استعمال بنایا اور جعلی گریس بھی تیا ر کی جارہی ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی کا موجب ہیں جبکہ لاہور روڈ پر قائم مختلف اشیاء ساز کمپنیاں جن میں ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب نہیں بڑی بے باکی اور کسی بھی طرح کے خوف و خطر سے آزاد صنعتوں یونٹس کے زہریلے اور کیمیکل زدہ مادوں کو مقامی نالوں اور چھوٹی بڑی راجباہوں میں گرا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور بہت بڑا سبب شہری ومضافاتی علاقوں میں قائم بھٹہ خشت بھی ہیں جن کی چمنیوں سے نکلنے والا زہریلہ دھواں ہوا میں معلق ہوکر آب و ہوا کو آلودہ کررہا ہے تاہم ماسوائے وہ پانچ صنعتی یونٹس جن میں ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب ہیں دیگر تمام کے تمام چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس کسی نہ کسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے بڑھاوے کا سبب ہیں جس کے باعث فقط انسانی حیات کو ہی نہیں بلکہ جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں تو دوسری طرف آبی جانداروں اور پرندوں تک کے اس ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں، اسی طرح ایک زرعی ضلع ہونے کے ناطے ماحولیاتی آلودگی کے باعث زرعی اجناس و فصلوں کا متاثرہ ہونا بھی لائق تشویش ہے۔


محکمہ ماحولیات پولیس سمیت دیگر ذمہ دار ادارے دانستہ خاموش تماشائی بن گئے

مزید :

ایڈیشن 1 -