میڈیا بلیک آؤٹ اور 380 انڈین گروپ
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کی طرف سے سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف مہم میں بھارت سے 380 گروپ متحرک تھے ۔ پاکستانی میڈیا پر پیمرا کی جانب سے کالعدم ٹی ایل پی کی کوریج پر مکمل پابندی تھی ۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں یہ نہیں کہا کہ ہمارا میڈیا پر سرے سے ہی بلیک آؤٹ تھا ۔ اگر میڈیا پر بلیک آؤٹ نہ ہوتا تو یہ 380 گروپ کام نہ کرسکتے۔ بلیک آؤٹ ہونے کا نقصان میڈیا کے ساتھ ساتھ عوام کو ہوا ۔ میڈیا پر پہلے ایک مذہبی جماعت کا نام لیا گیا ۔ کالعدم قرار دینےکے بعد پھر میڈیا پر مکمل سناٹا چھا گیا ۔ نہ ہی ٹکر چلا ، نہ کوئی بریکنگ چلی اور نہ ہی کسی اینکر نے اس پر تبصرہ کیا ۔
پاکستانی میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ کا نقصان عوام کے ساتھ خود میڈیا کی مقبولیت میں ہوا۔ ملک میں جیسے بھی مناظر ہوتے آگاہ کرنا لازمی تھا ۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں اکثر بے بنیاد اور غلط رہیں جو ابھی تک جاری ہیں ۔ سوشل میڈیا پر جاری کوئی ایسی خبر نہیں ہے جس کی تصدیق کی جائے ۔ میڈیا پالیسی میکرز کو یہ سوچنا ہوگا کہ مین سٹریم میڈیا کس کو ہونا چاہیے؟ ٹی وی اور اخبار آج بھی مین سٹریم میڈیا ہے۔ فیس بک سے لیکر ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ابھی تک مستند خبر نہیں دے رہے ۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی باتیں ہوسکتا ہے کسی اور ملک سے چل رہی ہوں ان کے اکاؤنٹ چلانے والے شاید کسی اور ملک میں بیٹھے ہوں ۔
ٹوئٹر پر جاری ٹاپ ٹرینڈ "سول وار ان پاکستان " ایک خود ساختہ ٹرینڈ تھا جس میں اکثر ٹویٹ انڈیا سے جاری کئے گیے تھے۔ جو پاکستان میں انتشار پھلانے کا باعث بنااور اس نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ۔ میڈیا میں کام کرنے والے دوستوں کو یہ علم ہوگا کہ خبر کی تصدیق کرنے کے کون کون سے مراحل ہوتے ہیں ۔ ایک ہی خبرکو کئی بار چیک کیا جاتا ہے۔ جس میں ادارے کی پالیسی وغیرہ شامل ہوتی ہے۔
اب ایک رپورٹر موقع پر موجود ہو اور لائیو بیپر ہو رہا ہے جس سے عوام براہ راست کے مناظر سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں اور دوسری جانب سوشل میڈیا نے ایک ایشو کے ساتھ جتنی بار آپ نے ٹویٹس کئے ہیں وہ پھر ٹرینڈمیں آنا شروع ہوجائے گا ۔ اس میں صداقت نہیں ہے کہ وہ ٹویٹس حقیقت پر مبنی ہیں یا بے بنیاد۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے بہت سارے پلیٹ فارمز میں ایک چیز کو بغیر کسی تصدیق کے ساتھ کیاجائے تو لوگ اس کو شئیر کرنا شروع کردیں گے ۔
ابھی تک دنیا بھر میں سوشل میڈیا سے جاری خبرحقیقت نہیں بن سکی اور پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا ہی سے کنفرم کیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ملک میں جاری صورتحال کو میڈیا نے سوشل میڈیا سے لیا اور اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر نشر کیا ۔ جس میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ وہ ٹھیک نکلے۔ پاکستان میں اکثریت کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ وہ ٹی وی یا اخبار سے خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں ۔ اخبار میں بھی لگی خبر، اداریہ اور پھر کالم ایک منظم نظام ہے جہاں آپ کو خبروں کے ساتھ ساتھ خبر پر تبصرے بھی ملتے ہیں ۔
میڈیا کو بلک آؤٹ کردینا میرے خیال میں ٹھیک اقدام نہیں ۔ اگر میڈیا میں ایک سیاسی پارٹی پربات ہورہی ہوتی ہے تو وہاں پر موجود دوسری پارٹی کا نمائندہ جوابی کارروائی کرتا ہے۔ میڈیا کو بالکل آزاد ہونا چاہیے ۔ میڈیا کی آزادی سے ہی عوام کو سچی اور حقیقی خبر مل سکتی ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.