دریا ئے ہنزہ اورپہا ڑوں کے بیچ دوڑتا یک رنگ راستہ ۔۔۔۔ خشک پہا ڑ، بھورا دریا اور سنّا ٹا

دریا ئے ہنزہ اورپہا ڑوں کے بیچ دوڑتا یک رنگ راستہ ۔۔۔۔ خشک پہا ڑ، بھورا دریا ...
دریا ئے ہنزہ اورپہا ڑوں کے بیچ دوڑتا یک رنگ راستہ ۔۔۔۔ خشک پہا ڑ، بھورا دریا اور سنّا ٹا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مستقل عنوان : ہنزہ کے رات دن 
مین سرخی : دریا ئے ہنزہ اورپہا ڑوں کے بیچ دوڑتا یک رنگ راستہ ۔۔۔۔ خشک پہا ڑ، بھورا دریا اور سنّا ٹا
مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :50
 آسمان پر بادل تھے اور کبھی کبھی ہلکی بوندیں پڑنے لگتی تھیں۔ کہیں کہیں سڑک کی حالت ابھی زیادہ اچھی نہیں تھی۔داہنے ہاتھ چٹا نیں تھیں جو اپنے کالے بھورے، کھردرے اور تڑخے ہوئے وجودکے ساتھ کبھی بہت قریب آجاتیں اور کبھی ذرا پیچھے ہٹ کر کشادگی پیدا کر دیتیں۔ بعض جگہوں پر ان کے شکستہ سنگی وجود سے الگ ہو کر گرنے والے پتھر بھی سڑک پر نظر آتے جو بتاتے تھے کہ زمینی پھسلاو¿یہاں جاری رہتا ہے۔
گینان:
یہ دریا ئے ہنزہ اورپہا ڑوں کے بیچ دوڑتا یک رنگ راستہ ہے۔ایک ہی منظر ہے میلوں تک پھیلا ہوا۔ خشک پہا ڑ، بھورا دریا اور سنّا ٹا۔ نومل چلت سے آ گے ضلع نگر کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ ڈرائی ور نے ایک کیسٹ لگا دیا۔ کو ئی آدمی اجنبی زبان میں کچھ گا رہا تھا۔ شاید بروشسکی میں۔ الفا ظ میری سمجھ سے باہر تھے لیکن اس کی کھرج دار آوازمیں یا ان الفاظ میں کچھ ایسا تا ثر تھا جس نے ویگن کے اندر ایک سکون آ میز فضا ءپیدا کر دی۔ اس لے میں یا آواز میں یا ان نا مانوس الفاظ میں ایسا کچھ تھا جس کے اندر ایک مختلف قسم کی وائبریشن تھی۔ باہر کا بے رنگ منظر اس آواز کے اتار چڑھاو ¿ کے ساتھ خوب صورت لگنے لگا۔میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک ہنزائی سے پو چھا،”یہ کیا گا رہا ہے؟“
”گینان۔“اس نے مختصر جواب دیا۔
یہ منقبت یا دعاو¿ں جیسی کو ئی شاعری تھی جس میں ایک کشش اور جادو تھا جو آ پ کو آنکھیں بند کر کے کچھ لمحے ارد گرد کے ما حول کو بھلا نے کے لیے کہتا تھا۔میں گینان کے متعلق مزید پو چھنا چاہتا تھا لیکن ایک بار میرا دل چاہا کہ میں خا موش رہوںاس لیے میں نے تجسس چھوڑ کر چپ رہنے کو ترجیح دی۔ کو ئی بات، کو ئی کو ئی احساس لفظوں کےلئے نہیں ہو تا۔ لفظ اس کی وقعت اور اثر کو کم کر دیتے ہیں۔ اسے آواز و الفاظ کے سطحی سہارے کے بغیر صرف دل سے دل تک پہنچنے کا مو قع دینا چاہیے۔ویگن میں گینان کی پر سوز آواز کے علاوہ مکمل خا موشی تھی جو اچھی لگ رہی تھی اور جس کے ساتھ یہ سفر بھی اچھا لگ رہا تھا۔ (بعد میں علم ہوا کہ اسما عیلی پیر شاعری میں قرآنی آیات کی جو تفسیر کرتے ہیں اسے گینان کہا جاتا ہے ۔ اس میں قصیدے کا رنگ بھی ہوتا ہے۔)
غلمت:
یو ں تو نگر کی حدود شروع ہو تے ہی راکا پو شی کی برف پوش چو ٹی آ پ کو دکھا ئی دینے لگتی ہے لیکن غلمِت میں بنے چینی پُل سے گزرتے ہو ئے دائیں ہاتھ یہ چو ٹی ایک دم اپنے تمام تر رعنائی کے ساتھ بالکل سامنے اور بہت قریب آ جا تی ہے۔ ایک بار تو اس وجدانی حسن کو دیکھ کر آدمی کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔یہاں میری درخواست پر ویگن روکی گئی اور ڈرا ئی ور نے ہمیں راکا پو شی کے سامنے تصا ویر بنانے کا مو قع دیا۔ سا منے زمین سے لے کر آ سمان تک سفید بر فوں کے قبا پہنے راکا پو شی تھی۔ ایک غیر زمینی وجود۔ دیوتاو¿ں کے رہنے کے لائق۔ یونانی دیوتا اسے دیکھ لیتے تو اولمپس چھوڑ کر فوراً یہاں شفٹ ہوجاتے۔وہ اس قدر نزدیک محسوس ہو رہی تھی جیسے ہاتھ بڑھا کر اس کے پا کیزہ وجود کو چھوا جا سکتا ہو۔یہ حسن نرگس کی آنکھ سے دیکھنے کا تھا۔ نظارے کو جنبش ِ مژگاں بھی بار تھی۔ 
" It's awesome !" ہم میں سے کئی لوگوں نے لمبا سانس کھینچتے ہوئے کہا۔
ان دودھیا برفوں سے آ نے والا سرد اور شفّا ف چشمہ ،روایتی چینی لا لٹینوں اور شیروں کے مجسموں والے پُل کے نیچے سے، جس پر اس وقت ہم کھڑے اس پیکر ِ حسن و جمال کو دیکھتے تھے، گزرکردریا ئے ہنزہ میں شامل ہو رہا تھا۔ جگہ کی افادیت محسوس کر کے کسی نے پُل کے بائیں جانب گھاس پر چھتریا ں گا ڑ کر چھو ٹا سا پکنک سپاٹ اور ریستوران بنا رکھا تھا۔ ہوا سرد تھی اور را کا پوشی کے سائے میں پا پلر کے خوش قامت درختوں کے پتے نتھری ہوا میں نا چتے تھے۔ جن کھیتوں کے گرد ان درختوں کا حصار تھا ان میں گندم اور جو کی ہری فصلیں کھڑی تھیں۔ راکا پوشی کا اس سے بہتر نظارہ اور کہیں نہیں ملتا۔یہ منظر ایک تصویر جیسا دل کش تھا۔ ہماری خواہش کے برعکس ڈرائی ور کو علی آباد پہنچنا تھا، اس لیے زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں تھا۔
یہاں سے پُل عبور کر کے ہم دریا ئے ہنزہ کے دائیں کنارے پر آ گئے اور ہنزہ کی حدود میں دا خل ہو گئے۔دریا پار نا صر آ باد تھا۔ یہاں پر را کا پوشی غلمت کی نسبت اور زیادہ قریب نظر آتی ہے۔ پھر مرتضیٰ آ باد گزرا، حسن آ باد میں ایک تیز رو نالہ نظر آیا۔ ایک مقامی نے بتایا کہ اس نالے پر ناروے نے پاور ہاو¿س تعمیر کر کے دیا ہے تا کہ بجلی کی مقا می ضروریات کو پورا کیا جا سکے ( پتا نہیں ہم اپنے لیے کچھ کرنے کے قابل کب ہوں گے !)۔ کچھ دیر بعد ہم علی آ باد میں تھے۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔