فیصلہ سازوں کی آزمائش……
قلمکار اور تجزیہ نگار آجکل عجیب و غریب مخمصے میں ہیں کہ وہ ایک صورتحال پر قلم اٹھا کر لکھنا شروع ہی کرتے ہیں تو صورتحال ہی بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک خبر کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں تو دوسری اس سے بھی اہم خبر نمودار ہو جاتی ہے۔ قانون، ضابطے یا جمہوری روایات کے حوالے سے تلاش کرتے ہیں تو وہ بے بسی اور شرم سے ایک طرف منہ چھپاتے نظر آتے ہیں۔ عجیب گھڑمس ہے جس کی کوئی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جو کچھ ہو گیا وہ نہ ہوا ہوتا تو بہتر تھا۔ اس کی واحد نہیں تو اہم اور شدید وجہ ہے کہ بے اصولی، ہمارے رگ و پے میں رچ بس گئی ہے۔ اگر کوئی کام ہمارے فائدے میں ہے تو وہ کتنا ہی غیر قانونی یا غیر اخلاقی کیوں نہ ہو ہم برضا رغبت اسے کر گزریں گے۔ اس پر مستزادیہ کہ نشاندہی پر بھی کوئی حرفِ ندامت ہماری زبان پر نہیں آئے گا۔ ہم بڑی ڈھٹائی سے اپنے غلط کام کا بھی دفاع کرتے نظر آئیں گے۔ اسی ایک ہفتہ عشرہ میں ہوس اقتدار نے بہت سے معتبر اور محترم چہروں سے نقاب کھینچ لئے ہیں۔ جس شخصیت کو روادار جانا جاتا تھا وہ فساد پسند نظر آئی کرسی کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ ٹھیس گجرات کے چودھریوں کو پہنچی ہے۔ یہ گھرانہ کئی دہائیوں سے سیاست میں رواداری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کا فائدہ ان کو یہ تھا کہ سیاسی مخالف بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ ان کی توقیر کی جاتی تھی۔ ان کے مشورے کو اہمیت دی جاتی۔ ان کے تجزیے کو بے لاگ سمجھا جاتا۔ پہلا قدم جس نے ان کی سیاسی پگ میں داغ لگا دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے متحدہ اپوزیشن سے ملاقاتیں کرکے اسے آمادہ کر لیا کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنا دیں۔ معاہدہ طے پا گیا۔ دعائے خیر ہو گئی۔ مٹھائی کھا کر منہ میٹھا کر لیا گیا۔
اپوزیشن نے انہیں اپنا امیدوار ظاہر کر دیا۔ یہ اعلان بھی سامنے آ گیا کہ مسلم لیگ ق کے جو وزراء وفاقی کابینہ میں ہیں وہ مستعفی ہو رہے ہیں۔ اسی دوران چودھری پرویز الٰہی کے جواں سال بیٹے، وفاقی وزیر مونس الٰہی نے اپنے آبا سے رابطہ کر کے انہیں سرکار کی جانب سے وزیر اعلیٰ کا امیدوار بننے پر آمادہ کر لیا۔ وہ ایوان وزیر اعظم پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے استعفٰی لے لیا گیا اور پرویز الٰہی حکمران پارٹی کے امیدوار بن گئے اول تو یہ غلط تھا کہ جب وہ حکومت کے اتحادی تھے اور ان کے تعاون سے ہی سپیکر پنجاب اسمبلی بنے تھے۔ صوبائی اور وفاقی کابینہ میں ان کے وزراء موجود تھے تو انہیں اپوزیشن سے سودا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پھر اگر کر لیا تھا تو وہ قائم رہتے، وزارتوں کی قربانی دیتے، سپیکری سے مستعفی ہوتے۔ با وقار طریقے سے انتخابی میدان میں اترتے لیکن اگر یہ غلطی کر لی تھی تو اس پر قائم بھی رہتے۔ ایک یوٹرن بھی اچھا نہیں ہوتا انہوں نے تو ایک ہی معاملے پر دو یوٹرن لے لئے۔ دوسرا یوٹرن لیتے ہوئے انہوں نے جن پر تکیہ کیا۔ ایوان نے ان کا بستر گول کر دیا۔ جس بیٹے کی وزارت بچانے کے لئے انہوں نے بے اصولی کی وہ تو پھر بھی فارغ ہو گیا اور جس مقصد کے لئے کی وہ بھی حاصل نہ ہوا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
بات یہاں تک رہتی پھر بھی شائد وقت ان کی سیاسی ساکھ بحال کر دیتا مگر پھر اگلا مرحلہ جو پنجاب اسمبلی میں درپیش تھا وہاں تو انہوں نے زندگی بھر کی پونجی، رواداری بھی لٹا دی۔ ووٹنگ کے جمہوری عمل کو شکست کے خوف سے انہوں نے جس طرح تار تار کرنے کی بار بار کوشش کی اس سے ان کے جسم پر ہی چوٹیں نہیں آئیں ان کی شخصیت کی شہرت کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ 197 ووٹ لے کر حمزہ شہباز نے سیاسی پرواز لے لی۔ اب بھی ”پرویزی حیلے“ جاری رہے اور ہٹ دھرمی سے مخالفین کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کے حربے استعمال کرنے کی کوششیں جاری رکھیں تو اس کا فائدہ ہونے کے امکانات کم کم ہی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی خوبی یا خامی ہی یہ ہے کہ اس میں فیصلہ کن کردار پارلیمان کا یا ارکان پارلیمینٹ کا ہوتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت یا شخصیت عوام میں کتنی بھی مقبول ہو اگر پارلیمان کے اندر اس کو اکثریت نہیں ملتی تو وہ ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح اگر وہ پارلیمان میں اکثریت ملنے پر حکمران ہو جاتی ہے اور پھر کسی مرحلے پر کسی وجہ سے پارلیمان کے اندر اکثریت کھو بیٹھتی ہے تو اسے اگلے الیکشن تک اقتدار سے بیدخل ہونا پڑتا ہے۔ بھلے عوام کی اس کو کتنی بھی حمایت حاصل ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھنے کی وجہ سے اقتدار سے تو محروم ہوئی ہی تھی۔
ارکان کے استعفوں کے اعلان کی بدولت وہ ایوان سے ہی باہر ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نئے سپیکر پرویز اشرف کسی تکنیکی وجہ سے ان کے استعفوں کو غیر موثر قرار دے دیں اور ایک نیا کھیل شروع ہو جائے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ چھان پھٹک سے بھی کچھ زیادہ فرق نہیں پڑنے والا۔ دس بیس ادھر کے ادھر بھی ہو گئے تو حکومتی صورتحال میں فرق نہیں پڑے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان نے عوام کو پکارا ہے اور عوام لپک لپک کر اس کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ایوان ایک طرف ہے اور عوام دوسری طرف۔ اسلام آباد پشاور اور کراچی کے مناظر بتا رہے ہیں کہ عمران ایک نئی قوت کے ساتھ میدان میں اتر آیا ہے۔ عوامی قوت کے ساتھ اور وہ ہر مخالف کو اس عوامی ریلے میں بہا لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو کپتان کو درپیش ہے۔ جتنا بڑا عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوگا اس سے نمٹنے کے لئے اتنا ہی بڑا انتظام کیا جائے گا۔ فارن فنڈنگ کیس آٹھ سال سے لٹکا ہوا تھا۔ اب اس کی روزانہ سماعت اور تیس دن میں فیصلہ کرنے کا اعلان ہو گیا ہے تو پی ٹی آئی کے قانونی وجود کے لئے ہی خطرہ پیدا ہو گیا۔ اگر پارٹی پر پابندی لگتی ہے تو یہ مشکل ہو گی مگر کوئی خاص نہیں۔ کپتان کی قیادت میں نئے نام سے نئی پارٹی رجسٹر ہو جائے گی اور اسی قوت سے الیکشن میں آئے گی۔ ہاں اگر خود کپتان نا اہلی کی صلیب پر لٹکا دیا گیا یا پابند سلاسل کر دیا گیا تو پھر خاصا مسئلہ ہوگا۔ یہ موقعہ ہوگا نئی تاریخ رقم ہونے کا۔ زنداں سے جس کے ہاتھ میں ٹکٹ تھما دیا جائے گا۔ وہ کپتان ہوگا اور زخم خوردہ عوام اس کو ہی اپنے زخموں کا مداوا جان کر کندھوں پر اٹھا لے گی۔ اس لئے فیصلہ سازوں کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ ورنہ پی ٹی آئی کے پوسٹروں پر فیض کا مصرعہ نظر آئے گا۔
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے