پڑھنے والے یقینا حیران ہو رہے ہوں گے کہ ”مسلم اقتدار“ اور اسلامی اقتدار“ بظاہر ایک ہی چیز معلوم ہوتی ہیں تو اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن موجودہ ملکی حالات کو دیکھ کر اس نازک سے فرق کو اچھی طرح سے سمجھانا وقت کی اہم ضرورت ہے جو’ ’اسلامی حکومت“ اور’ ’مسلم حکومت“ کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اسلام کوئی جسم و جان رکھنے والی مخلوق نہیں ہے کہ وہ اپنے اس مطلوبہ اقتدار کو خود اپنی کوششوں سے حاصل کر لے گا اور حاصل کرنے کے بعد اسے اپنے ہاتھوں میں رکھے گا ،بلکہ یہ سب کچھ ہمارے جیسے انسانوں کے ذریعے ہی انجام پائے گا۔ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد انسانی ہاتھوں میں ہی رہے گا ،مگر بڑا فرق ہے اس اقتدار میں جو مسلمانوں کو اُن کے اپنے لئے مطلوب ہو اور جو انہیں اصلاً اسلام کے لئے مطلوب ہو۔ اول الذکر اقتدار حکومت ”مسلم اقتدار“ ہوتا ہے اور دوسری قسم کا ”اسلامی اقتدار“ کہلاتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال اسلامی تاریخ میں خلفاءراشدین کا اقتدار اور یزید ملعون کا اقتدار تھا۔
اسی بناءپر ایک طرف اہل ایمان کی تعریف اگر قرآن پاک میں سورة قصص آیت نمبر 83میں ان الفاظ میں کی ہے کہ ”وہ زمین میں عُلو (سربلندی) اور فساد (بگاڑ) نہیں چاہتے“۔ تو دوسری طرف انہیں سورة آل عمران کی آیت نمبر 139میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”تم ہی سربلند ہو گے اگر تمہارے اعمال اندر سچا ایمان موجود ہو“۔ مفہوم یہ ہے کہ جو عُلو اور سربلندی اپنی ذات کے لئے ہوتی وہ دراصل سرکشی اور جباریت ہوتی ہے، جو کہ ہمارے ملک میں اس وقت دیکھی جا سکتی ہے.... (بشمول حکومت، اپوزیشن اور اقتدار کو ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں کرنے والوں کے درمیان).... جبکہ صاحبِ ایمان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ، لیکن جو سربلندی اور برتری اسلام کے لئے ہوتی ہے وہ سراپا خیر اور رحمت ہوتی ہے اور ہر سچے مسلمان کا دل اس کا آرزو مند ہوتا ہے- بلاشبہ اقتدارِ حکومت کی دونوں قسمیں کلمہ گو مسلمان کی ہیں ،لیکن عملی طور پر یہ دونوں قسمیں جوہری طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ بنیادی تصورات مختلف ہونے کے باعث نتائج اور ثمرات بھی یکسر مختلف ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں دونوں ہی ”اقتدار“ ہیں اور دونوں ہی ”اہل اسلام“ یعنی کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ایک کی حیثیت مقدس امانت اور بھاری ذمہ داری نبھانے کی ہے، جبکہ دوسرے (فاسق) کی حیثیت ذاتی ملکیت اور آزاد حق کی ہے۔ ظاہر بین نگاہیں سطح کو دیکھ کر دھوکہ کھا سکتی ہیں، لیکن اہلِ نظر پر اتنا بڑا فرق چھپا نہیں رہ سکتا۔
اس تحریر کا مقصد پاکستانی عوام کو آگاہی دینا ہے کہ وہ محسوس کریں کہ وہ اپنے وطن عزیز میں ”مسلم اقتدار“ چاہتے ہیں یا بابرکت ”اسلامی اقتدار“؟ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ”مسلم اقتدار کو خوب دیکھ لیا اور انجام بھی۔ اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”اسلامی اقتدار“ آنے کی راہیں ہموار کریں۔ اقتدار کی حرص رکھنے والوں کو پہچانیں اور ان کی باتوں کو یکسر مسترد کر دیں۔ یاد رکھیں اگرچہ شاہین اور کرگس کی پرواز بظاہر ایک فضا میں ہوتی ، مگر دونوں کا جہاں ایک نہیں ہوتا۔ آج ارض پاک کا ہر باشندہ دل سے چاہتا ہے کہ پاکستان میں ”اسلامی اقتدار“ ہو نہ کہ ”مسلم اقتدار“۔