عوام اور اسلامی جنرل حمید گل کا خواب؟
جنر ل ( ر)حمید گل کی فکر ونظر اور ان کے خوا ب کا روحانی مداح ہونے کے ساتھ ساتھ ملاقاتوں اور مختلف تقریبات میں ان کے حقائق پر مبنی خیالات اوراحساسات کو سُننے کا موقع ملا،وہ ہمیشہ مایوسی میں امید کی شمع جلاتے،پاکستان کی جغرافیائی سرحد پر حملے کو جس طرح سلامتی کے خلاف سمجھتے تھے اسی طرح پاکستان کے اسلامی تشخص پر حملے کو بھی ملکی سلامتی کے خلاف سمجھتے تھے،یہ ان کی نظریہ پاکستان سے وابستگی کا کھلا ثبوت تھا،جنرل حمید گل کا شمار پاکستان کے ان جنرلوں اور قائدین میں ہوتا ہے، جنہوں نے نظریہ پاکستان کو اپنے ایمان کا حصہ بنایا اورتادم واپسیں وہ اس پر قائم رہے یہ ان کی تاریخ کا شاندار باب ہے۔
جنرل حمید گل پوری امت کا اثاثہ تھے،ان کے دل میں پوری امت کا درد موجود تھا،وہ ہر جگہ بہنے والے مسلمانوں کے خون سے اکثر غمگین رہتے تھے مگر کبھی بھی مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا،راقم نے ایک عرصے تک میڈیا کے محاذ پرفلسطینیوں اور مسجد اقصیٰ کے لیے سینیٹر راجہ ظفرا لحق کی زیر سرستی کام کیا ہے ، اس دوران جب کبھی پاکستان اور کشمیرکے کسی کونے سے آواز آتی کہ اسرائیل کو تسلیم کیاجائے تواس کے رد عمل میں پہلی نظر جنرل حمید گل پرپڑتی وہ اپنا اور پاکستان کا اصولی موقف اس انداز سے بیاں کرتے کہ پوری قوم اس پر یکسو اور مطمئن ہو جاتی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو موقف جنرل حمید گل کا تھااس کی وجہ سے اسرائیلی یہودی بھی ناخوش تھے اور عالمی صہیونی بھی پریشانی میں مبتلاتھے،امریکی پالیسیاں چونکہ عالمی صہیونی ترتیب دیتے ہیں اس لیے انھوں نے ہمیشہ ہندوستان کی حمایت کی اور پاکستان کی مخالفت کی اس کی وجہ عالمی صہیونی ہیں اسلام اور پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر سازشوں میں مصروف عالمی صہیونیوں کو جنرل حمید گل آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا،جب تک حمید گل زندہ رہے وہ اپنے اور نظریۂ پاکستان کے موقف پر قائم رہے اسرائیل کے حوالے سے ان کی پالیسی اور موقف بڑاواضح اور دوٹوک تھا۔
چندسال قبل کل جماعتی کشمیررابطہ کمیٹی برطانیہ کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان تشریف لایاقائد کشمیر عبدالرشید ترابی نے راقم کو وفد کی ترجمانی اور پاکستان میں قومی قائدین سے ملاقاتوں کے حوالے سے ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیا تو دیگر قائدین کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد جنرل حمید گل سے بھی ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں مسئلہ کشمیرکو عالمی اور ملکی سطح پر کیسے اٹھایا جائے کے حوالے سے بہت ہی مفید تجاویزجنرل حمید گل کی طرف سے سامنے آئیں۔وہ کشمیریوں کے حقیقی محسن تھے،ان کی نرم مزاجی اور حکمت سے لبریز گفتگو ہر کسی کو خیرہ کرلیتی تھی،افغانستان کامحاذ ہو فلسطین اور عرب وعجم کا مسئلہ ہو وہ مضطرب رہتے تھے۔پاکستان کی سلامتی استحکام اور تکمیل کے محاذپر وہ مرنے سے ایک دن قبل بھی اسی مستعدی سے کام میں مصروف تھے جیسے وہ ایام شباب میں تھے،کشمیرکا محاذ ہویا افغانستان کا بنگلہ دیش میں بھارتی سازشیں ہوں یا ایٹمی دھماکوں کا مرحلہ انھوں نے جرات بہادری اور دانش سے وہ فیصلے کروائے جس سے پاکستان آج نہ صرف محفوظ ہے بلکہ دنیا کی ایٹمی طاقت ہے۔
جنرل حمید گل کا خواب تھا کہ پاکستان ایک اسلامی اور ایٹمی طاقت بنے جو اسلامی ممالک اور دنیا کی قیادت کرسکے ،پاکستان میں یہ پوٹنشل موجود ہے ،اس کی جغرافیائی پوزیشن اس کی فوج انسانی طاقت،سمندر اور اندر بہتے دریا اس ملک کو دنیا کی سپر طاقت بناسکتے ہیں۔حقیقی طورپر پاکستان دنیا کی قیادت کرسکتاہے،پاکستان کو ایک سازش کے تحت بھارت اور اسرائیل نے امریکہ کی سرپرستی میں داخلی طورپر عدم استحکام کا شکار کیا ہواہے،پاک فوج اور عوام مل کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملاسکتے ہیں،یہ جنرل حمید گل کی خواہش تھی کہ پاک فوج اور عوام مل کر دشمنوں کامقابلہ کریں،دفاع پاکستان کونسل کے نام پر انہوں نے ایک پلیٹ فارم پر اپنا کردارادا کیا، کشمیرپر پسپائی کے حوالے سے جنرل حمید گل نے پوری کوشش کی کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے آج اگر عالمی صہیونیوں نے عالمی حالات اپنے اہداف کے حصول کے لیے موافق بنالیے ہیں تو یہ کل تک قائم نہیں رہیں گے۔آج اگر ہم اپنے اصولی موقف سے ہٹ گئے تو کل ہمارے لیے مشکلات ہوں گی،کشمیرکے حوالے سے رائے عامہ تقسیم ہوجائے گی،مقبوضہ کشمیرکے اندر قیادت تقسیم ہوجائے گی جس سے ، مسئلہ کشمیرکو ناقابل تلافی نقصان ہوگا،اس کے مقابلے میں انتظار کیا جائے کہ ہم اس کیفیت سے نکل آئیں اور کسی بڑے حادثے سے بچ جائیں۔ جنر ل حمید گل نہ صرف عسکری امور کے ماہر تھے بلکہ سیاسی امورکے بھی ماہر تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی بصیرت دی تھی کہ وہ دیوار سے دوسری طرف دیکھ سکتے تھے،ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دیوار پر لکھا بھی نہیں پڑھ سکتے دیوار سے دوسری طرف دیکھنا تو ان کے لیے محال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل پاکستان اور کشمیر اپنے ان قائدین کے نظریات اور خیالات کو زندہ رکھیں، ان پر چلیں ان کو مشعل راہ بنائیں۔