امریکہ بھارت دوستی اور پاکستان
امریکہ نے ایک بار پھر ’’ڈومور‘‘کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے پاکستان میں دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہوں پر تشویش ہے پاکستان ہمسایہ ممالک میں حملہ کرنے والے گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کرے۔ امریکہ نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اسلام آباد مخصوص گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے حقانی نیٹ ورک کے خلاف افغانستان کی مدد کرنی چاہیے۔یہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بڑی زیادتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے کام کرنے والی غیر ملکی ایجنسیوں کے افراد پکڑے گئے ہیں انہوں نے دنیا کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ہندوستان نے افغانستان کے اندر مخصوص گروپ تشکیل دے رکھے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور آئے روز پاکستانی فورسز پر حملے کرتے ہیں امریکہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان آرمی نے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں مگر یہ صرف پاکستان کے عوام اور ملکی استحکام کے لئے کیا گیا۔ جبکہ ہمسایہ ممالک کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں کئے جارہے ۔
بھارتی وزیر داخلہ نے لوک سبھامیں پاکستانی دورے کے حوالے سے کہا کہ میں نے سارک کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف مضبوط موقف اپنایا اور تمام ملکوں سے درخواست کی ہے کہ دہشت گردوں کو مجاہدین آزادی کے طور پر پیش نہ کریں یہ اشارہ واضح طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو مسلمانوں کے خلاف ایکشن لے کر قتل و غارت کر رہا ہے اس کو چھپا نے کی ناکام کوشش تھی حالانکہ پاکستان میں تمام ہمسایہ ممالک سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی جانب سے ایک وقت میں پاکستان کے خلاف الزامات اس بات کی قوی دلیل ہے کہ دونوں ممالک اپنے مفادات کے لئے مل کر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں۔ ادھر بھارتی وزیر داخلہ بھی یہی بولی بول رہے ہیں۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی پاکستان کی فوجی امداد بھی روک لی ہے۔
جب بھی پاک بھارت تعلقات کشیدگی کا شکار ہوتے ہیں امریکہ بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کردیتا ہے جس کا مقصد بھارت کو خوش کرنا ہے۔ امریکہ بھارت کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کر رہا ہے جبکہ اس سے پہلے پاکستان کوبھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کر چکا ہے جس میں پاکستان نے اربوں ڈالر اور ہزاروں افراد کے شہید ہونے کا نقصان اُٹھایا اور عوام کی اربوں روپے کی پراپرٹی تباہ ہو چکی ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثرور سوخ سے امریکہ خطرہ محسوس کررہا ہے۔ اس پر غلبہ حاصل کر نے کے لئے اسے کسی ملک کے تعاون کی ضرور ت تھی وہ بھارت کو خوش کر کے چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں بھارت کے اڈے استعمال کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ جنگ کی صورت میں ملکوں کو فوجی معاونت کی ضرورت بھی ہوتی ہے اسی لئے دونوں ملکوں نے فوجی نظام کو بروئے کار لانے کا معاہدہ بھی کرلیا ہے جبکہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کی بدولت پاکستان کی سالمیت پروار کرنے کی سہولت ملے گی ۔
پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے اب ایٹمی قوت ہے اگر خدا نحواستہ دنیا کے کسی بھی ملک نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو پاکستان انشاء اللہ اپنے حملہ آوردشمنوں کو نیست و نابود کر دے گا۔ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سی پیک منصوبہ بھی امریکہ کو کھٹک رہا ہے وہ کسی صورت نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط ہوں۔ امریکہ بھارت اتحاد کا ایجنڈا پاک چین دوستی کے حصار کو توڑنا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بھارت پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور خوشحال نہیں دیکھ سکتا۔ جب بھی پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی گئی تو بھارت کسی بات کو جواز بنا کر مذاکرات سے فرار حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ کشمیر کا مقدمہ نہیں جیت سکے گا۔اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے بار بار پاکستان پر در اندازی کا الزام لگاتا ہے۔
چین اس خطے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ پہلے سے زیادہ تعلقات مضبوط کرنے میں کوشاں ہے سی پیک منصوبے پر جس سنجیدگی سے چین کام کر رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی اصلیت کا پتہ چل چکا ہے چین پوری طاقت سے اپنے دشمنوں سے نپٹ سکتا ہے۔ اب پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ خطے کی صورت حال اور بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی نئے سرے سے تشکیل دے۔ امریکہ ایک طرف پاکستان کو اپنا اتحادی کہتا ہے اور دوسری طرف بھارت کو تھپکی دے کر پاکستان کے خلاف اکساتا ہے۔ امریکہ کبھی کبھی افراد کو پاکستان کے تعلقات سے زیادہ ترجیح دے کر اپنے مطالبات پورے کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ کی ہمیشہ دوغلی پالیسی رہی ہے وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ اب پاکستان امریکہ سے واضح پالیسی کا مطالبہ کرے، پاکستان کے لئے بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کر کے اپنی خود مختاری اور سلامتی کو برقرار رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
چین ہمارے ساتھ مخلصانہ دوستی نبھا رہا ہے کشمیر کے مسئلے پر بھی اس نے ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے اس لئے پاکستان کو بھی صدق دل سے چین مخالف چند کرداروں کو پاکستان سے ختم کرے،جو گاہے بگاہے حیلوں بہانوں سے چین سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو پھر پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا موجودہ صورت حال میں مضبوط سے مضبوط سفارت کاری کرنے کی ضرورت ہے نوجوان صحت مند دماغوں کو خارجہ پالیسی میں استعمال کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہ کرنے کا الزام مخلصانہ تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی قربانیوں کی توہین ہے۔ پاکستان کی مخالف قوتیں ہر طرح ہر حال میں پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔چاہے ان میں بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کی بات ہو۔ غیر ملکیوں کو پاکستان سے واپس بھیجنے والا منصوبہ ہو ۔ سی پیک منصوبے کو تکمیل کی مدت سے مکمل کرنے کا تعلق ہو۔