ون ویلر موٹر سائیکل پر ہو یا سیاست میں؟
موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے والے کھلنڈرے اور غیر ذمہ دار نوجوان موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کر کے نہ صرف اپنی بلکہ سڑ ک پر چلنے والے دیگر لوگوں کی زندگیوں کو بھی خطرے کا شکار کر دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل دو پہیوں کی سواری ہے لیکن جب اسی دو پہیوں کی سواری کو ایک پہیہ پر چلانے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک جان لیوا کھیل بن جاتا ہے۔ اسی لئے لاہور کی پولیس نے ون ویلنگ کے خلاف ایک موثر مہم چلائی جس میں یہ باور کروایا گیا کہ ون ویلنگ نہ صرف جان لیوا ہے بلکہ خلاف قانون بھی ہے۔اسی لئے یہ سلوگن دیا گیا کہ ون ویلنگ کے دو ہی انجام جیل یا موت۔ لاہور میں یوم آزادی پر موٹر سائیکل کی ون ویلنگ کھلنڈرے نوجوانوں کاایک دل پسند مشغلہ بن چکا تھا۔ ہر سال کئی نو جوان اس جان لیوا شوق کی وجہ سے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اور یوم آزادی کئی گھروں میں سوگ کا باعث بھی بن جاتی تھی۔ لاہور پولیس کے سربراہ کیپٹن (ر) محمد امین وینس کو اس بات کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے یوم آزادی سے قبل ون ویلنگ کے خلاف ایک بھر پور آگہی مہم چلائی اور اس کے بعد یوم آزادی پر اس قدر سختی کی کہ یہ بہت سالوں بعد پہلی یو م آزادی ہے جب ون ویلنگ کی وجہ سے کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اور لاہور کی سڑکوں پر ون ویلر کھلنڈرے نوجوانوں کے کرتب بھی نظر نہیں آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کیپٹن امین نے یہ ثابت کیا ہے کہ نوجوانوں کو سمجھا یا بھی جا سکتا ہے اور جو نہ سمجھیں انہیں قانون سمجھانے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ان کی اسی کارکردگی کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی انکو خرا ج تحسین پیش کیا ہے۔
آجکل سیاسی ون ویلنگ کا زمانہ ہے۔ سیاست کے نوجوان اور غیر ذمہ دار کھلاڑی سیاست میں ون ویلنگ کر کے نہ صرف اپنی بلکہ دیگر سیاسی کھلاڑیوں کی جان کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے کی بھی ایک خاص عمر ہے ۔ یہ وہ عمر ہے جب آپ بچپن سے نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ نہ آپ مکمل جوان ہوتے ہیں اور نہ ہی مکمل بچے ہوتے ہیں۔ جسے عمومی طور پر کچی عمر بھی کہا جاتا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی ایسے سیاسی کھلاڑی ہیں جن کا بچپن تو ختم ہو رہا ہے لیکن ان پر سیاست کی بھر پور جوانی نہیں آئی یہ سیاسی طور پر کچی عمر میں ہیں۔ اس لئے اپنی سیاسی گاڑی پر ون ویلنگ کر رہے ہیں۔ اپنی اسی سیاسی ون ویلنگ کی وجہ سے انہوں نے سیاسی موٹر وے پر ایک اودھم مچا رکھا ہے۔ اپنی جان کو بھی خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے اور دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی جان کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہوا ہے۔ سیاسی موٹر وے پر سب ڈر رہے ہیں کہ ان سیاسی ون ویلرز کی وجہ سے کہیں کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے۔ جس میں ان کی جان ان کی حرکتوں کی وجہ سے تو جائے گی لیکن کئی بے گناہ بھی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سیاسی ون ویلر کون ہیں اور ان کی پہچان کیا ہے۔ یہ سیاسی ون ویلر وہ ہیں جو اپنی سیاسی سواری کو مقررہ رفتار سے تیز اور ایک پہیہ پر چلا کر عوام کی توجہ اور داد حا صل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے کرتب کو عوام ان کی بہادری سمجھیں گے اور ان کے پیچھے آجائیں گے۔ یہ کچی عمر کے سیاسی کھلاڑی اپنے جوش اور اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں پر وقتی داد کو اپنی کامیابی سمجھ لیتے ہیں۔ان کو کون سمجھائے کہ جس طرح سڑک پر موٹر سائیکل چلانے میں کرتب سے زیادہ اہم منزل پر پہنچنا ہے۔ اور آپ جتنی مرضی تیز چلائیں جتنے مرضی کرتب دکھائیں اگر آپ منزل پر نہیں پہنچ سکے تو کیا فائدہ۔ اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی اگر آپ نے اپنے سیاسی کرتب اور سیاسی مداری شو سے کچھ داد حاصل بھی کر لی ہے لیکن آپ اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے تو اس کا کیا فائدہ۔ ایک دور میں تو اس ملک میں ائیر مارشل اصغر خان کا طوطی بھی بولتا تھا ۔ وہ بھی بہت بڑے لیڈر تھے۔ ان کے بھی بہت بڑے بڑے جلسہ ہوتے تھے۔ لیکن انہوں نے بھی سیاست میں ون ویلنگ کی ۔ سیاست کے مروجہ اصولوں کی پاسداری نہیں کی۔ اور اس طرح وہ سیاست کے میدان میں اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے۔اور تاریخ میں ان کا نام ایک نا کام سیاستدان کے طور پر ہی رہے گا۔
محترم عمران خان نے بھی بیان دیا ہے کہ چاہے ان کی سیاسی مقبولیت کتنی بھی کم ہو جائے ۔ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ لیکن پاکستان کی سیاست کے میدان میں ون ویلر کی بہترین مثال ڈاکٹر طاہر القادری کی ہے۔ وہ مکمل سیاسی ون ویلر ہیں۔ وہ سیاسی میدان میں ہر وقت ون ویلنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لئے منزل پر پہنچنا بھی کوئی اہم نہیں۔ ان کے لئے ان کے کرتب اوران پر ملنے والی وقتی داد ہی اہم ہے۔ وہ اپنی ون ویلنگ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ جتنی کھلنڈرے نوجوان اپنی ون ویلنگ سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی سیاست کے میدان میں ہم تو مرے ہیں تم کو بھی لیکر کر مریں گے کے مصداق ون ویلنگ کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان بھی سیاسی میدان میں ون ویلنگ کے ماہر ہیں ۔ لیکن شاید ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک مکمل کھلنڈرے نوجوان کی طرح سیاست کے میدان میں کھونے کے لئے کچھ نہیں۔ اس لئے نہ تو اپنی سیاسی موت کی پرواہ ہے اور نہ ہی اس بات کی پرواہ کہ وہ کسی اور کی بے وجہ موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ تا ہم زیادہ پر امید اور خوش آئند بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریتی مرکزی سیاسی قیادت ذمہ دار ہو چکی ہے۔ اور کھلنڈرے اور غیر ذمہ داری کے دور سے نکل آئی ہے۔ صرف ایک دو سیاسی کھلاڑیوں نے سڑکو ں پر شور مچا یا ہوا ہے۔ لیکن ایسا ہی ہوتا ہے ایک دو ون ویلر ز نے ہی سڑک پر شور مچایا ہو تا ہے۔ باقی سب تو پر سکون قانون و قائدہ کے مطابق ہی منزل پر پہنچنے پر یقین رکھتے ہیں۔