سپریم کورٹ کی کمیٹی کو بچوں کے اغوا کی صرف 24شکایات موصول ہوئیں ،ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی نے اعضاء کی خریدو فروخت کا امکان مسترد کر دیا
لاہور(سعید چودھری )پنجاب میں بچوں کے اغواء کے معاملہ پر ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی کو اب تک اغواء اور بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے 24شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ پنجاب ہیومین آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی نے اغواء ہونے والے بچوں کے جسمانی اعضاء کی خریدوفروخت کومکمل طور پر خارج از امکان قرار دے دیا ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے 28جولائی 2016ء کو اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے پاس شکایات کے اندراج کے لئے خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم ہے ،اس ہیلپ لائن پر اب تک 24شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں 2006ء اور2007ء میں بچوں کے اغواء کی شکایات بھی شامل ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن خان سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں بچوں کے اغواء اور گمشدگی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر تفصیلی رپورٹ مرتب کررہے ہیں جس کے لئے رات گئے تک ایڈووکیٹ جنرل آفس میں اجلاسوں کا انعقاد معمول بن چکا ہے ۔ذرائع کے مطابق کمیٹی نے اغواء ہونے والے بچوں کے جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے بارے میں بعض میڈیا رپورٹس کی تحقیقات بھی کی ہیں ،اس سلسلے میں پنجاب ہیومین آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود سے بھی معاونت طلب کی گئی ،اس اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق اتھارٹی کو بچے تو ایک طرف کسی بڑے شخص کے جسمانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کی بھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق کوئی ہسپتال یا ڈاکٹر رجسٹریشن کے بغیر جسمانی اعضاء کی پیوندکاری کا مجاز نہیں ،اس حوالے سے لاہور میں 15ہسپتال رجسٹرڈ ہیں جبکہ پنجاب کی دیگر ڈویژنوں میں کمشنرز کی نگرانی میں پنجاب ہیومین آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کام کررہی ہے ۔ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے مطابق اغواء شدہ بچوں کے جسمانی اعضاء کی خریدوفروخت ممکن نہیں ہے ۔پیوندکاری کے لئے جسمانی اعضاء کی میچنگ کا ایک لمبا پراسیس ہے جبکہ جسم سے علیحدگی کے بعد کسی عضوکی زندگی چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی ۔سپریم کورٹ کی خصوصی کمیٹی کی عبوری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں یکم جنوری2016ء سے اب تک بچوں کے اغواء کے 1035مقدمات درج ہوئے ہیں،جن میں سے اکثریت کو بازیاب کروایا جاچکا ہے ،اغواء برائے تاوان کے 4مقدمات سامنے آئے جن میں تمام بچوں کو بازیاب کروالیا گیا تاہم 300سے زائد بچے ایسے ہیں جنہیں پولیس اب تک بازیاب کروانے میں ناکام رہی ہے ۔خصوصی کمیٹی کی ہیلپ لائن 042-99212360پر بھکی ضلع شیخوپورہ کے 12سالہ سبحان علی کے اغواء کی شکایت بھی درج کروائی گئی تاہم متعلقہ پولیس بچے کو بازیاب کروانے میں ناکام رہی اور شکایت درج کروانے کے چند روز بعد سبحان علی کی نعش برآمد ہوئی جس پر کمیٹی کی طرف سے سخت نوٹس لیا گیا ہے ۔کمیٹی کو جن افراد کے اغواء کی شکایات درج کروائی گئی ہیں ان میں فیصل آباد کے 20سالہ محمد شہزاد ،رحیم یار خان کے 15سالہ محمد بلال ،قصور کے 18سالہ طیب خوشی ،لاہور کے 12سالہ اسامہ ،بہاولپور کے13سالہ وہاب ، رحیم یارخان کے 14سالہ محمد عرفان ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کے11سالہ علی شیر اصغر ، رحیم یار خان کے 15سالہ محمد حسن اور18سالہ محمد حسین ، رحیم یار خان کے ہی 25سالہ منیر احمد ،شیخوپورہ کے 12سالہ محمد سہیل ،اوکاڑہ کے علی رضا ،بہاولنگر کے 17سالہ محمد سلیم ،رحیم یارخان کے رہبر علی ،وہاڑی کے 14سالہ حافظ ناصر محمود، راولپنڈی کے 16سالہ سمیع اللہ عباسی ،اوکاڑہ کے 12سالہ رب نواز، راولپنڈی کے30سالہ محمد شعبان ،جڑانوالہ کے10سالہ اللہ رکھا اور ننکانہ صاحب کا 12سالہ وسیم عباس شامل ہیں ۔2015ء میں تھانہ باغبانپورہ لاہور کی حدود سے اغواء ہونے والی2سالہ بچی جویریہ کے والد محمد نعیم نے بھی پولیس کی غفلت اور ابھی تک اپنی بچی کی عدم بازیابی کی شکایت کی ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ایسے اغواء کے واقعات کے بھی مقدمات درج کروائے ہیں جن میں پولیس 4،4سال سے لیت ولعل سے کام لے رہی تھی ۔ذرائع کے مطابق کمیٹی کی خصوصی دلچسپی کے باعث راولاکوٹ کے سینئر سول جج کے اغواء شدہ بچے کی بازیابی کے لئے بھی مثبت پیش رفت ہوئی ہے ۔کمیٹی کے سربراہ نے فرانزک سائنس ایجنسی کے متعلقہ حکام سے بھی رپورٹ کی تیاری کے لئے معاونت لی ہے ۔عبوری رپورٹ کے مطابق 2015ء میں 1134بچوں کے اغواء یا گمشدگی کے مقدمات درج ہوئے جبکہ اس سال اب تک اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد 1035بیان کی گئی ہے ۔