دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن
مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے، جو اپنی جماعت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بھی تھے اور جنہیں96 ووٹ ملے،مطالبہ کیا ہے کہ انتخاب میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔اپنی شکست کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر25 جولائی کے انتخابات اور ان کے نتائج کو مسترد کیا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے الیکشن تھے جن میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم(آر ٹی ایس) بند ہو گیا۔انہوں نے حالیہ الیکشن کو ملکی تاریخ کے انتہائی متنازع اور دھاندلی شدہ انتخابات قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں متفقہ مطالبہ کرتی ہیں کہ فی الفور ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے، جو دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرے اور اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اِس مطالبے کے منظور ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور اگر ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ہم اس ایوان کو چلنے نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا مسلم لیگ(ن) وزیراعظم عمران خان سے کوئی این آر او نہیں مانگ رہی،شریف خاندان کے خلاف مقدمات کی حقیقت قوم کے سامنے آ رہی ہے۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے’’نمائندہ پارلیمانی کمیشن‘‘ بنانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور کہا مساوی مواقع نہیں تھے، فارم45نہیں دیا گیا۔انہوں نے ایوان میں دونوں جماعتوں کی ہنگامہ آرائی کو ’’حماقت‘‘ قرار دیا۔ حکومت کی دو حلیف جماعتوں نے بھی جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لئے عمران خان کو ووٹ دیا، پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ دھاندلی صرف کراچی میں نہیں،پورے پاکستان میں ہوئی،عمران خان نے کہا ہے کہ حلقے کھولنے کے لئے تیار ہیں تو کمیشن بنا دیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو پیشکش کی کہ وہ چاہے تو دھرنا دے،کنٹینر اور کھانا ہم دیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کوئی بھی حلقہ کھولنے کے لئے الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ جائے،ہم تعاون کریں گے۔ ابھی زیادہ دِن نہیں گزرے، لاہور کے حلقہ131 میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہو رہی تھی اور پانچ تھیلے کھول کر گنے جا رہے تھے کہ عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہنچ گیا، یوں گنتی کا عمل رُک گیا۔اِس سے پہلے مسترد شدہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں بھی سعد رفیق کے ووٹ بڑھ چکے تھے اور جیت کا فرق مزید کم ہو گیا تھا، اِس لحاظ سے اگرچہ بہتر تھا کہ وہ دوبارہ گنتی ہونے دیتے تا کہ مخالفین کو اعتراض کا موقع نہ ملتا اور وہ یہ نہ کہتے کہ عمران خان نے اس معاملے میں بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ویسے بھی یہ نشست چھوڑنے کا فیصلہ تو وہ کر ہی چکے تھے اس لئے اگر دوبارہ گنتی میں اُن کے ووٹ مزید کم ہو جاتے یا ہار بھی جاتے تو عملاً نتائج پر کوئی فرق نہ پڑتا، تاہم اس کے بعد اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ انہوں نے اپنی فتح کی تقریر میں اپوزیشن کے مطالبے پر ہر حلقہ کھولنے کا جو اعلان کیا تھا،اس پر قائم نہیں رہے۔غالباً اُن کی اور اُن کے قانونی ماہرین کی رائے میں کہیں نہ کہیں تصادم ہے،ممکن ہے کہ کسی نے اُنہیں یہ مشورہ بھی دیا ہو کہ اگر اُن کا حلقہ کھلا تو ساتھ ہی ایسا پنڈورا بکس بھی کھل جائے گا جس سے ایسی بلائیں نکلیں گی جنہیں دوبارہ ڈبے میں بند کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس لئے وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔
اب انہوں نے اپوزیشن کو الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ جانے کا جو مفت ’’مشورہ‘‘ دیا ہے یہ نہ کوئی احسان ہے اور نہ ہی ایسی کوئی رعایت ہے جو وہ اپوزیشن کو پیش کر رہے ہیں،یہ ہر ہارنے والے امیدوار کا حق ہے کہ وہ اپنی عذر داری لے کر ٹریبونل میں جائے، الیکشن کمیشن نے بیس ٹریبونل بنا دیئے ہیں۔ جن سے ہارنے والے وہ امیدوار رجوع کر سکتے ہیں،جنہیں شکایات ہیں یہ قانونی عمل تو اپنی جگہ ہے، لیکن قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کے علاوہ عمران خان کی حلیف جماعتوں نے بھی پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، اِس لئے انتخابی عذر داریوں کے متوازی اگر یہ کمیشن بھی بن جائے تو کیا مضائقہ ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب عمران خان اپوزیشن کو دھرنے کی بھی فراخ دلانہ دعوت دے رہے ہیں،غالباً اُنہیں امید ہے کہ اپوزیشن ایسا دھرنا نہیں دے سکتی یا کسی وجہ سے نہیں دے گی،لیکن قومی اسمبلی میں دو دِنوں کے اندر جس قسم کا ماحول دیکھنے میں آیا ہے،اور احتجاج کے جو مناظر سامنے آئے ہیں، ان سے آنے والے دِنوں کا تصور کیا جا سکتا ہے۔اگر اپوزیشن آئندہ بھی ایسے ہی احتجاج کا راستہ اختیار کرتی رہی اور بعید نہیں کہ ایسا سلسلہ جاری رہے تو ایوان کی کاررروائی کو ہموار طریقے سے جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
2013ء کے الیکشن کے بعد خود عمران خان نے احتجاج اور دھرنوں کا راستہ اختیار کیا، پھر اُن کے مطالبے پر ایک جوڈیشل کمیشن بنا، جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کی، جو اس نتیجے پر پہنچا کہ انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی،اِس لئے اگر سابق حکومت نے، بعد از خراب�ئ بسیار ہی سہی،اُن کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن بنا دیا تھا تو اب پارلیمانی کمیشن بنانے میں کیا حرج ہے،لیکن ماضی کی حکومتوں کا وطیرہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جب تک احتجاج کی لہر اونچی اور لو بلند نہ ہو، وہ عام طور پر ایسے مطالبوں کو پذیرائی نہیں بخشتیں۔ عمران خان بھی ایک وزیراعظم ہیں، اُن کی بھی ایک حکومت ہے،اِس لئے وہ ہماری حکومتوں کے متفق علیہ کلیئے سے کیونکر مستثنا ہو سکتے ہیں، وہ بھی فی الحال انتظار کریں گے کہ یہ احتجاج غیر موثر ہو جائے، احتجاج کی یہ چڑھی ہوئی ندی اُتر جائے، بپھرے جذبات آسودہ ہو جائیں اور یہ مطالبہ اپنی موت آپ مر جائے یا احتجاج دم توڑ جائے تو اس قسم کے کمیشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی،لیکن دوسری جانب اپوزیشن چاہے گی کہ کمیشن بنوانے تک احتجاج جاری رہے۔ ابھی تو ایم کیو ایم(پ) اور بی این پی(مینگل) نے اپوزیشن کے مطالبے کی حمایت کی ہے،عملاً احتجاج میں شریک نہیں ہوئیں،لیکن جلد یا بدیر ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب یہ جماعتیں بھی احتجاج میں شریک ہو جائیں۔اس استدلال پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ ماضی میں ایسے مناظر دیکھے گئے اور راتوں رات حلیفوں نے حریفوں کی شکل اختیار کرلی۔ جن دو حلیف جماعتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تو ویسے ہی کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہیں، یہ دھاگہ ٹوٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، اِس لئے اس سے پہلے پہلے پارلیمانی کمیشن بنا دینا ہی دانش مندی ہو گی، ویسے ’’رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند‘‘۔