قربانی کے لئے جانور کی عمرکتنی ہونی چاہئے ؟ ایسا شرعی مسئلہ جسے جانے بغیر جانور نہیں خریدنا چاہئے
لاہور (ایس چودھری)عید قربان سے پہلے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ قربانی کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہئے ۔بکرا منڈیوں میں فراڈ بھی کئے جاتے ہیں اور زخمی و ناکارہ جانور بھی قربانی کے نام پر فروخت کردئےے جاتے ہیں جبکہ ان میں کئی کم عمر جانور بھی ہوتے ہیں جن کی پہچان کے لئے ان کے دانتوں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے ۔بعض لوگوں نے قربانی کے جانور کو اسکی جسامت کے اعتبار سے جائز سمجھ لیا ہے جبکہ اسکی عمر کافی کم ہوتی ہے ۔مارکیٹ میں ایسے بھاری جسامت کے جانور جن کی عمر چھ ماہ سے بھی کم ہوتی ہے ،دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں ایسی غذائیں کھلا کر موٹا کردیا جاتا ہے کہ وہ سال بھر کے دکھائی دینے لگتے ہیں۔یہ کاروباری ہتھکنڈہ قربانی کے ضمن میں انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے ۔اس بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے کہ قربانی کے لئے جو جانور قربان کیا جائے گا اسکی عمر کتنی ہونی چاہئے ۔اس حوالہ سے مفتی عبدالقیوم ہزاروی کا کہنا ہے کہ قربانی کاجانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔ بکری، 2۔ اونٹ، 3۔گائے۔ ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مونث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری کی جنس میں اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ کسی وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں۔ تاہم قربانی کے جانور کی عمروں کا تعین اس اعتبار سے کرنا چاہئے کہ اونٹ کی عمر پانچ سال، گائے بھینس دو سال کی ہو، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہونی چاہئے یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ زیادہ عمر ہو تو بہتر ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔