”فاشسٹ مودی کہاں وار کرے گا ؟“
فاشسٹ بھارتی قیادت کی طرف سے غیر آئینی تبدیلی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی نام ونہاد الگ حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کی درخواست پر بلائے جانے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکاءنے جہاں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارد ادوں کی توثیق کردی ہے ۔ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان اوربھارت کے مابین ایک حل طلب تنازع بھی قرار دیدیا جو دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور پلیٹ فارم پر بھارت کی واضح پسپائی ہے ۔
یہ بھارت کے اس دیرینہ موقف پر کلنک کا ٹیکا لگ کر ابھرا ہے جس کی مدد سے بھارت اپنی مکاری اور عیارانہ ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی حمایت کرنے کا پروپیگنڈا کرتے ہوئے عالمی برادری کی آنکھوں میں کئی دہائیوں سے دھول جھونکتا آیا ہے ۔بھارت کا موقف یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن اب یہ دھول اس کی اپنی آنکھوں میں آن پڑی ہے جس نے نام نہاد سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے اس فاشسٹ ریاست کوایک لحاظ سے نیم اندھا کرکے رکھ دیا ہے ۔
مودی جیسے فاشسٹ سے موجودہ حالات میں کسی بھی قسم کی حماقت کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ مودی سرکار کی جانب سے پاکستان یا آزاد کشمیر کیخلاف کی جانیوالی کوئی بھی احمقانہ جارحیت خود بھارت ماتا کی جڑوں پر کاری وار ہوگی جس کا ماتم یہ ہندو نازی ٹولہ شائد مسلمانوں کی ہندوستان پر ہزار سالہ حکمرانی سے زیادہ کرے جو یہ پچھلی تین صدیوں سے کرتاآرہاہے ۔فاشسٹ مودی سرکار کی جانب سے سے پاکستان یا آزاد کشمیر میں کسی ممکنہ جارحیت کا ارتکاب جواب میں لگائی جانیوالی ایک کاری ضرب سے کس طرح سے بھارت ماتاکوٹکڑوں میں بانٹ سکتا ہے ؟ اس کااندازہ بھارت میں جاری خالصتان کی تحریک سمیت دیگر علیحدگی پسند تحریکوں کا جائز ہ لینے سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔
ہندوستان میں مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزاد ی کے بعد تین دہائیاں قبل زوروں پر رہنے والی سب سے بڑی تحریک خالصتان کی آزادی کیلئے سکھوں کی تحریک ہے ۔یہ تحریک اس وقت بظاہر تو اتنی موثر نظر نہیں آتی لیکن یہ ایک دبی ہوئی چنگاری ہے جو ہر سکھ کے سینے میں دہک رہی ہے ۔ یہ چنگاری کسی وقت بھی ایک آتش فشاں کاروپ اختیار کرسکتی ہے جس کے شعلے بھارت ماتا کی چتا جلانے کیلئے کافی ہونگے ۔ قابض بھارتی فوج نے جس طر ح دربار صاحب پر لشکرکشی کرکے سکھوں کے اس متبرک مذہبی مقام کاتقد س پامال کرتے ہوئے سنت جرنیل سنگھ بھنڈاراں والا سمیت سینکڑوں خالصہ سکھوں کا قتل عام کیا تھا ۔ اس عظیم سانحے کو سکھ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔
بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کا عالم یہ ہے کہ صرف آسام میں 34باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کا بھارت کے 162اضلاع میں کافی اثر و رسوخ ہے۔ آسام کے علاوہ تریپورہ ، ہماچل پردیش ، میزورام،منی پور ، میگھالیہ اور ناگالینڈ باغی تحریکوں کے گڑھ خیال کئے جاتے ہیں۔بہار، جھاڑ کھنڈ ، چھتیس گڑھ ، مغربی بنگال ، اڑیسہ،مدھیا پردیش ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم ہیں جبکہ ناگالینڈ کے ناگا باغی اورنکسل باڑیوں کی تحریک بھارتی وجود کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔ ان تحریکوں میں زیادہ طاقتور اور سرفہرست نکسل باغی اورناگا لینڈ کے باغیوں کی تحریکیں ہیں۔
ایسے میں اب اگرمودی سرکار عالمی رائے عامہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی موثر قراداد پا س ہونے کے باوجود اس پر بھی عمل در آمد کرنے سے انکار کرتی ہے ۔ فاشسٹ حکومت صرف کشمیریوں پر مظالم اور پاکستان کے خلاف جارحیت کا راستہ ہی اختیار کرتی ہے توپھر چانکیہ کے چیلوں کوخاطر جمع رکھنی چاہئے ۔
بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کے جواب میں پاکستانی فوج اور قوم کی جانب سے جو سرپرائز ملے گا وہ تو ملے گا ہی لیکن اس شوق پنجہ آزمائی میں آدھے سے زائد بھارت بھی برہمن کے تسلط سے نکل سکتا ہے ۔ ہندو فاشسٹوں کی کسی بھی احمقانہ محاذ آرائی سے ہوسکتا ہے کہ آئندہ ہزار وں سالوںتک بھارت پر قابض یہ نازی سوچ رکھنے والے ٹولہ شدھی ، سنگھٹن اور آر ایس ایس کا ماتم کرتا رہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔