جنرل راحیل شریف اور گورنر پنجاب سے بھی ملے
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی لاہور میں اہم مصروفیات،
لاہور سے چودھری خادم حسین
وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیان سے پیدا صورت حال کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دی اور اس حوالے سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں سفارتی سرگرمیاں بھی ہوئیں۔ سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نے لاہور کا اہم دورہ کیا اور یہاں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی اہم ترین ملاقات جنرل (ر) راحیل شریف سے تھی، جو لاہور میں مقیم ہیں، ان کے بارے میں متضاد اطلاعات مل رہی ہیں، ایک تو بظاہر بالکل سیدھی ہے کہ جنرل راحیل شریف کی بطور سربراہ متحدہ عرب افواج مدت مکمل ہوئی اور وہ توسیع کے بغیر خاموشی سے واپس چلے آئے۔ دوسری یہ بات چل رہی تھی کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا اور اب وہ متحدہ فوج کے سربراہ نہیں۔ ان حالات میں سفیر محترم کی ملاقات بڑی اہمیت کی حامل ہے، تاہم دونوں فریقوں کی طرف سے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا، بہتر ہوتا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی طرف سے وضاحت کر دی جاتی یا پھر محترم سفیر سے ہی سوال کر لیا جاتا، بہرحال نواف بن سعید المالکی یہاں گورنر پنجاب جودھری سروراور پروفیسر ساجد میر سے بھی ملے اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔ سفیر سعودی عرب نے واضح کیا کہ سعودی عرب اور پاکستان دوست نہیں بھائی ہیں۔ اور ہم (سعودی عرب) پاکستان کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ گورنر پنجاب نے بھی ایسے ہی جذبات و خیالات کا اظہار کیا، جبکہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید معمول کے ہفت روزے دورے پر لاہور آئے تو انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ کے بیان سے پیدا ہونے والی غلط فہمی دور کر لی گئی ہے اور پاک، سعودی تعلقات معمول پر آ گئے ہیں۔ شیخ رشید نے یہاں بھی دہرایا کہ مریم نواز نے خود پتھراؤ کا انتظام کیا اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ بھی اپنے والد کے پاس ملک سے باہر جانا چاہتی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی طرف سے مسلسل یہ الزام دہرایا جا رہا ہے کہ مریم نواز پر حملہ کیا گیا۔ عظمیٰ بخاری نے باقاعدہ اور رانا ثناء اللہ نے وکیلانہ انداز میں اس موقف کو دہرایا، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ مریم نواز کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جبکہ عظمیٰ بخاری کے مطابق مریم نے جان کی پروا کئے بغیر کارکنوں کا ساتھ دیا، ٹھوکر نیاز بیگ پر ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق مزید گرفتاریاں نہیں کی گئیں، جبکہ وقوعہ کے روز گرفتار 58 کارکنوں کو بھی ضمانت کے بعد جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے موقع پر کارکنوں کی بھاری تعداد موجود تھی اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، سخت نعرہ بازی بھی ہوئی۔ نیب کی طرف سے مزید افراد کو بلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مریم نواز کی طلبی کے حوالے سے ابھی کوئی اطلاع نہیں، حالانکہ اس روز پیشی منسوخ کرتے وقت کہا گیا تھا کہ جلد ہی نئی تاریخ کا فیصلہ کرکے ان کو پھر سے طلب کیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان جو غلط فہمی پیدا ہوئی، ابھی تک اسے دور کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے پرانے حلیفوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فریقین اب اپنی اپنی حکمت عملی سے آگے بڑھیں گے۔ مریم نواز سے جاتی امرا میں پروفیسر ساجد میر نے ملاقات کی اور ٹھوکر نیاز بیگ واقع کے حوالے سے خیریت دریافت کرنے کے علاوہ تجدید تعلق بھی کیا، نیب میں پیشی والے روز تقریر، بیان اور پریس کانفرنس کے بعد سے مریم نواز پھر سے خاموش ہیں، جبکہ ان کی جماعت کے رہنما احسن اقبال ملاقات کررہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر محمد شہبازشریف اپنی مرضی کے مطابق بیان جاری کرتے۔ ٹویٹر کے ذریعے بات کررہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں کہ ان کی بات سچ ثابت ہو گئی ہے۔
کورونا لاک ڈاؤن کھلنے کے ساتھ ہی کئی نئے انکشاف ہوئے ہیں۔ یوم آزادی کے روز کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک خاتون کو لوٹ لیا گیا۔ برسرعام دن دہاڑے یہ واردات ایک نوجوان موٹرسائیکل سوار نے کی جس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، بظاہر یہ دونوں بہن بھائی یا میاں بیوی لگتے تھے۔ موٹرسائیکل سوار نے کار کے سامنے آکر روکا اور پھر ہر دو نے موزر دکھا کر پرس، زیور اور موبائل لیا اور چلتے بنے، لٹنے والی خاتون تاحال خوفزدہ ہے۔ پولیس نے مقدمہ تو درج کیا لیکن سراغ کوئی نہیں، البتہ یہ تاثر ضرور دیا گیا کہ یہ واردات نئے سٹریٹ کرائمز والوں کی ہے، جو گروپ بنا کر اب شروع ہوئے اور بظاہر یہ پڑھے لکھے بھی ہیں نئے مجرموں کی وجہ سے ان کی شناخت اور گرفتاری میں مشکل ہو رہی ہے۔ ایسی وارداتیں شہر بھر میں بڑھ گئی ہیں اور شہری تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ ڈولفن، پیرو اور ہنگامی پولیس کہاں ہے؟
حکومت بیانات اور نوٹس لینے، جاری کرنے کے باوجود چینی، آٹے کی قلت اور نرخوں پر کنٹرول نہیں کر سکی ا ور نہ ہی اشیاء ضرورت اور خورد و نوش کی قیمتوں میں کوئی فرق پڑا۔ حالت یہ ہے کہ ادرک ایک ہزار روپے فی کلو بک رہا ہے۔ شہری دل برداشتہ ہیں اور ٹھوس عمل کا مطالبہ کررہے ہیں۔