حضرت سیدنا حسینؓ اور فلسفہ شہادت
اسلامی تاریخ کے تاریک دنوں میں سے ایک دن 10 محرم الحرام (یوم عاشورہ) 61 ہجری کا ہے کہ جس دن ایک نہایت افسوسناک حادثہ دشتِ کربلا میں پیش آیا جس میں نواسۂ رسولﷺ،سبط رسولﷺ،جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ‘ حضرت سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ نے اپنے اعزہ اور اپنے اعوان وانصار کیساتھ جام شھادت نوش فرمایا۔
سبط رسولﷺ حضرت سیدناحسینؓ ابنِ علیؓ سےمحبت وعقیدت رکھنا حضرات صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لیکر آج کے دن تک مسلمانانِ عالم اپنا دینی،اخلاقی ایمانی فریضہ سمجھتے ہیں،حددرجہ عزت وقدر کی نگاہ سےدیکھتے ہیں،کسی طرح بھی اُن کے متعلق تحقیرانہ لہجہ یا گستاخانہ رویہ اختیار کرنے کو حرام سمجھتے ہیں،اپنی مجالس و محافل میں انکی شجاعت و سخاوت،صبر و استقلال اور جرات وشہادت کا تذکرہ کرنا باعثِ برکت و نجات سمجھتے ہیں۔آپؓ سیرت وکردار کے لحاظ سے مسلم اُمّہ کیلئے مینارہِ نور اور منبع و رشد و ہدایت کا درجہ رکھتے ہیں۔
واقعہ کربلا اچانک ظہور پذیر ہونے والا حادثہ نہیں تھا بلکہ اسی سبائی(عبداللہ ابن سبا یہودی) سازش کا ایک مظہر تھا جو عرصہ پچیس سال قبل اسے ہی افسوسناک حادثے کو جنم دے چکی تھی ،یعنی حضور نبی کریمﷺ کے دوہرے داماد اور تیسرے خلیفہ راشد امام مظلومِ مدینہ حضرت سیدنا عثمانؓ ذوالنورین کی مظلومانہ شھادت۔ حضرت سیدنا حسینؓ مملکت اسلامیہ کو اسلامی خطوط پر چلانا چاہیئے تھے تاکہ حکومت کو منہاج نبوتﷺ کے راستے پر ڈالا جا سکے اسی لئے آپؓ نے بیعت یزید سے انکار کیا۔
معرکہ کربلا اقتدارنہیں اقدار کی جنگ تھی،اسلام کےنظام خلافت کے مزاج کو بچانے کی جنگ تھی ۔حضرت سیدنا حسینؓ اسلام کے نظام سیاست میں ذرہ برابر بگاڑ بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ نواسہ رسول ﷺ،سبط مصطفےﷺ،جانشین مرتضیؓ اور ہزاروں صحابہ کرامؓ سے فیض حاصل کرنے والے شجاع ابن شجاع،علم و دانائی کا کوہ گراں،جرات وشجاعت کے پیکر،حلم ورفق کے علمبردار،اخلاص و ایثار کا مجسمہ سخاوت و شرافت کا معدن،بے باکی و جواں ہمتی میں عظیم المرتبت شخصیت تھے۔اسی لئے جس چیز کو انہوں حق سمجھا اسی پر ڈٹ گئے استقامت واستقلال کا راستہ اختیار کیااور دوسری طرف اہل کوفہ کیطرف سے کثرت سے وفود و خطوط آئے جن میں حضرت سیدنا حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی، خطوط میں لکھا گیا کہ آپؓ کیساتھ ایک لاکھ آدمی ہونگے آپ جلد از جلد کوفہ تشریف لائیں ۔
حضرت سیدنا حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو صحیح صورتِ حال معلوم کرنے کیلئے کوفہ بھیجا۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کے کوفہ پہنچنے پر اہل کوفہ نے بڑی گرم جوشی سے انکا استقبال کیا۔ دراصل یہ سازشی لوگ بہر صورت حضرت سیدنا حسینؓ کو کوفہ بُلانا چاہتے تھے ۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کے دستِ مبارک پر اہل کوفہ نے حضرت سیدنا حسینؓ کی امارت پر بیعت کی اور قسم کھائی کہ وہ اپنی جان ومال سے اُنکی مدد ونصرت کریں گے۔ان کی بیعت پر پہلے بارہ ہزار پھر بڑھ کر اٹھارہ ہزار لوگ جمع ہو گئے۔
اہل کوفہ کا جھوٹی بیعت کا ڈرامہ رچانا دراصل اپنے طے شدہ منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔حضرت مسلم بن عقیلؓ نے حضرت سیدنا حسینؓ کو کوفہ تشریف لانے کی دعوت دے دی اور عرض کیا اُن کیلئے بیعت کی راہ ہموار ہے۔ اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیلؓ نے انہی کوفیوں کیساتھ مل کر قصر امارت کا محاصرہ کیا تو امرائےِ قبائل نے( جو عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ قصرِ امارت میں تھے) اپنے اپنے قبائل کے ان افراد کو( جو حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ تھے) حکم دیا کہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کو چھوڑ کر چلے جائیں لہذا بے وفا اور دغاباز کوفیوں نے بھاگنا شروع کر دیا اور مغرب کی نماز کے بعد حضرت مسلم بن عقیلؓ تنہا رہ گئے اور اُنہیں کوئی راستہ تک بتانے والا نہیں تھا حتی کہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کو گرفتار کر لیا گیا۔
حضرت مسلم بن عقیلؓ نے شہادت سے قبل حضرت سیدنا حسینؓ کے نام خط تحریر کیا اور ابن سعد سے کہا کہ یہ خط اپنے برادرِ بزرگ حضرت سیدنا حسینؓ تک پہنچا دینا، اس خط میں حضرت مسلم بن عقیلؓ نے لکھا کہ میرے بھائی حضرت سیدنا حسینؓ کوفیوں کے قریب بھی مت آنا۔یہی وہ لوگ ہیں جو آپؓ کے والد(سیدنا علی المرتضیؓ )کے ساتھی کہلائے(یعنی انکی محبت و دوستی کے جھوٹے دعوے دار تھے) اور جن نے نجات پانے کیلئے آپؓ کے والد موت یا شہادت کی تمنا اور آرزو رکھتے تھے،ان کوفیوں نے آپؓ سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی جھوٹ بولا۔(طبری،ناسخ التواریخ)
دوسری طرف پہلے سے ہی حضرت سیدنا حسینؓ کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کی طرف سے کوفہ آنے کی دعوت ملی تو انہیں نے سفرِ کوفہ کی تیاری شروع کر دی۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے حضرت سیدنا حسینؓ کو سفر سے منع کیا اور کہا کہ کوفی دھوکہ باز لوگ ہیں، ان سے دھوکہ نہ کھائیے ،اسی شہر (مکہ مکرمہ)میں قیام کریں۔حضرت سیدنا حسینؓ نے کہا کہ اب تو میں نکلنے کا عزم کر چکا ہوں، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے کہا کہ اگر آپؓ ہر حال میں جانا طے کر چکے ہیں تو بچوں اور عورتوں کو ہرگز نہ ساتھ لے جائیں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ آپؓ کو اس طرح نہ شھید کیا جائے جیسے حضرت سیدنا عثمانؓ ذوالنورین کو انکی عورتوں اور بچوں کے سامنے شھید کیا گیا تھا (البدایہ والنھایہ ) اسی طرح حضرت سیدنا حسینؓ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے ہر ممکن طریقے سے آپؓ کو کوفہ جانے سے روکا جائے۔ (طبری)اسی طرح حضرت ابو سعید خدریؓ نے آپؓ کو کوفہ جانے سے روکا۔ (البدایہ والنھایہ )
ان جلیل القدر حضرات صحابہ کرامؓ نے حضرت سیدنا حسینؓ کو کوفہ جانے سے روکا کیونکہ اہل کوفہ حضرت سیدنا علی المرتضیؓ کو شھید اور حضرت سیدنا حسن مجتبٰیؓ کو بارہا زہر دے چکے تھے،ان حضرات کا یہی کہنا تھا آپؓ کے والد (سیدنا علی المرتضیؓ )اور بھائی (سیدنا حسن مجتبٰیؓ ) سے غداری کرنے والے آپؓ سے وفا نہیں کریں گے۔ البتہ حضرت سیدنا حسینؓ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں مکہ مکرمہ سے سفر کوفہ کیلئے روانہ ہو گئے اور راستے میں جب حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر ملی اور خط موصول ہوا تو حضرت سیدنا حسینؓ نے حضرت مسلمؓ کے خط کو پڑھ کر واپسی کا ارادہ کیا مگر حضرت مسلم بن عقیلؓ کے بھائیوں نے انکار کیا اور کہا کہ ہم بھائی کے خون کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائینگے۔
حضرت مسلمؓ کے قتل کا بدلہ یا جو شھادت کا شربت مسلمؓ نے پیا ہے ہم بھی پی لیں گے۔ سفرِ کربلا میں حضرت سیدنا حسین ؓ کی ملاقات حضرت عمرو بن سعدؓ سے بھی ہوئی (یہ بیٹے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے جو رشتے میں آنحضرتﷺ کے ماموں اور عشرہ مبشرہؓ میں سے ہیں)حضرت عمرو بن سعدؓ نے بھی حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شھادت اور اہل کوفہ کی مکاریاں آپؓ کے سامنے پیش کیں اور اہل کوفہ کیطرف حضرت سیدنا علی المرتضیؓ اور حضرت سیدنا حسن مجتبٰیؓ پر ہونے والے مظالم آپؓ کے سامنے پیش کیے۔حضرت سیدنا حسینؓ نے اہل کوفہ کی طرف سے آنے والے وفود اور خطوط کا ذکر کیا مگر قابل افسوس بات کہ حضرت سیدنا حسینؓ کے اس بیان پر وہ غدار اور سازشی و شرارتی عناصر صاف انکاری ہو گئے لہذا حضرت سیدنا حسینؓ کے سامنے کوفیوں کی بے وفائی بدعہدی اور غداری واضح ہو گئی۔
سبط رسولﷺ حضرت سیدنا حسینؓ کیطرف سے کی جانے والی مشہور ومعروف تین شرائط جو مختلف کتب میں موجود ہیں۔پہلی شرط۔ مجھے واپس جانے دو ،جہاں سے آیا ہوں۔دوسری شرط۔ مجھے اسلام کی سرحدوں میں کسی سرحد پر بھیج دو تاکہ میں کفار کے خلاف جنگ و جہاد میں اپنی بقایا زندگی گزار دوں۔ تیسری شرط۔ مجھے یزید کے سامنے جانے دو۔(البدایہ النھایہ،تاریخ ابن خلدون،تاریخ کامل،تاریخ طبری،بحار الانوار،ناسخ التوریخ )
ان تینوں شرائط میں سے ایک بھی شرط قبول کرنا ان مکاروں۔۔۔۔غداروں۔۔۔کو اپنی موت نظر آتی تھی۔اسی لئے انہوں نے حضرت سیدنا حسینؓ اور انکے رفقا کو بے دردی سے میدان کربلا میں شھید کر دیا۔ حضرت سیّدنا حسینؓ نے اپنے اعزہ اور اعوان وانصار کیساتھ جام شھادت نوش فرمایا۔ مسلم اُمّہ کو دینِ اسلام کیلئے تبلیغ و جہاد،ہمت وشجاعت،استقامت واستقلال اور صبر ورضا کا پیغام تھا۔معرکہ کربلا میں شہید ہونے والی قابلِ ذکر شخصیات یہ ہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیؓ کی اولاد میں حضرت حسینؓ ،حضرت جعفرؓ ،حضرت عباسؓ،حضرت ابوبکرؓ،حضرت محمدؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت سیدنا حسن مجتبٰیؓ کی اولاد میں حضرت عبداللہؓ،حضرت قاسمؓ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت سیدنا حسینؓ کی اولاد میں علی اکبرؓ اور عبداللہؓ حضرت عقیلؓ بن ابی طالب کی اولاد سے حضرت عبداللہؓ حضرت عبدالرحمنؓ،عبداللہ بن مسلمؓ،حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کی اولاد سے حضرت عونؓ، حضرت محمدؓ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین )جبکہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ میں پہلے ہی شھید کر دیا گیا تھا۔ ان سب کا تعلق رسول اللہﷺ کے گھرانے سے تھا (تاریخ خلفاء صفحہ 234)
1-میدان کربلا میں حضرت سیدنا حسینؓ کا خطبہ۔۔حضرت سیدنا حسینؓ نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم اپنی رائے بدل دو اور اقرار میری بیعت کا توڑ دو تو مجھے اپنی جان کی قسم کہ تم سے یہ بے وفائی بعید نہیں کیونکہ میرے باپ سیدنا علیؓ المرتضی اور میرے بھائی سیدنا حسنؓ اور میرے چچا زاد بھائی حضرت مسلمؓ سے تم یہی سلوک کر چکے ہو۔اے اہل کوفہ! تم تباہ وبرباد ہو جاؤ،تم نے آتشِ شروفساد کو بھڑکایا ،عدل وانصاف چھوڑ کر دشمنوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے دوستوں سے مکروفریب کرنے پر متفق ہو گئے ہو۔مردار دنیا کی طمع میں آگئے ہو حالانکہ ہم نے کوئی نامناسب کام نہیں کیا۔
اے کوفیو!تم پر اور تمہارے ارادوں پر لعنت ہو۔اے بے وفایانِ جفاکار تم نے ہنگامۂ اضطراب واضطرار میں ہمیں اپنی مدد کیلئے بُلایا جب میں تمہاری درخواست قبول کر کے تمہاری نصرت ومدد کیلئے آیا تو تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی اور اپنے دشمنوں کی تم نے مدد کی اور دوستوں سے کنارہ کش ہو گئے ۔ اے گمراہانِ امت۔۔پیروانِ شیطان تم پر لعنت ہو کہ فرزندانِ پیغمبرﷺ کو کافروں کی خاطر قتل کرتے ہو۔اے کوفیو! واقعی تم لوگ رسول اللہﷺ کےدشمن ہو جو انکی اولادسےیہ سلوک کیا۔اللہ تعالی تمہیں روزقیامت سیراب نہ کریں۔
2-میدان کربلا میں حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسینؓ کا خطبہ۔ اے لوگو! میں تم کو قسم دیتا ہوں۔کیا تم جانتے ہو کہ تم نے میرے والد کو خط لکھے اور انکو فریب دیا۔ اُن کو پختہ عہد وپیمانِ بیعت دیا۔ پھر تم نے ان سےلڑائی کی اورشہید کیا۔ ہلاکت ہو تمارے لئے، تم کس آنکھ سے آنحضرتﷺ کو دیکھو گے جب وہ فرمائیں گے تم نے میری اولاد کو قتل کیا اور میری بے حرمتی کی۔تم میری امت میں سے نہیں ہو۔ (آپؓ کا خطاب سن کر کوفیوں کے ہجوم سے رونے کی آواز بلند ہوئی اور وہ ایک دوسرے کو بددعا دینے لگے اور ایک دوسرے کو کہنے لگے تم تباہ وبرباد ہو گئے۔)اے کوفہ کے غداروں! کیا تم ہم پر روتے اور نوحہ کرتے ہو تو پھر ہمیں تمہارے علاوہ اور کس نے قتل کیا؟؟؟لعنت ہو تم پر تم نے اپنے پاؤں سے جھنم کی راہ اختیار کی۔
3-حضرت سیدہ زینبؓ بنت علی المرتضیؓ کا خطبہ۔
حضرت سیدنا حسینؓ اور انکے اعزہ، انصار و اعوان کی شہادت کے بعد آپؓ کی بہن خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی لختِ جگر حضرت سیدہ زینبؓ بنت علی المرتضیؓ کا خطبہ اہل کوفہ کے نام۔اللہ تعالی کی حمد وثنا اور آنحضرت ﷺ پر درود وسلام کے بعد فرمایا۔۔۔۔!!!اے کوفیو۔۔۔!! ظالمو۔۔۔غدارو۔۔۔قتل کرنے والو۔۔۔بہت بُرا ہے جو تم نے آگے بھیجا ہے کہ اللہ تم پر ناراض ہوااور تم ہمیشہ عذاب میں مبتلا ہو۔۔۔تم ہمیشہ روتے رہو۔۔ہاں اللہ کی قسم تم روتے رہو۔۔کیونکہ تمہیں رونا ہی زیب دیتا ہے۔۔۔خوب روؤ اور کم ہنسو ۔۔۔کل میدان محشر میں اپنے پیغمبرﷺ کو کیا جواب دو گے جب وہ پوچھیں گے کہ تم آخری امت ہو ۔۔۔؟؟ تم میرے بعد میرے اہلبیتؓ اور میری اولادؓ سے کیا سلوک کیا؟؟؟ بعض کو قیدی بنایا اور بعض کو شہید کیا۔
4-حضرت سیدہ فاطمہؓ بنت حسینؓ کا خطبہ ۔۔۔حضرت سیدنا حسینؓ کی لختِ جگر اور نورِ نظر سیدہ فاطمہؓ بنت حسینؓ کا خطبہ۔اے کوفیو۔۔دھوکے بازو۔۔۔مکارو۔۔۔تم نے ہمیں جھٹلایا اور ہماری ناشکری کی ۔۔۔ہمارے قتل کو حلال سمجھا اور ہمارے مال تم نے مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ لیے گویا کہ ہم ترکوں یا کابل کی نسل سے تھے۔جس طرح تم نے کل ہمارے دادا حضرت سیدنا علی المرتضیؓ کو قتل کیا تھا۔تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے۔
5- حضرت سیدہ ام کلثومؓ بنت علی المرتضیؓ کا خطبہ۔۔۔۔
حضرت علی المرتضیؓ کی لختِ جگر،سیدنا حسینؓ کی بہن کا خطبہ کچھ یوں ہے کہ اے کوفیو! تمہارا بُرا ہو تمہیں کیا ہوا کہ تم نے حسینؓ کو دھوکہ دیا اور انہیں شھید کیا۔ان کا مال لوٹا اور خواتین کو قیدی بنایا اور اب تم روتے ہو ۔۔ ۔تم برباد ہو جاؤ ۔۔۔کیا تم کو علم ہے کہ تم نے کس کو شہید کیا؟تم نے کس کا خون بہایا اور گناہ کا کتنا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادا اور کس کا مال لوٹا؟؟ تم نے آنحضرتﷺ کے بہترین افراد کو قتل کیا۔تمہارے دل سے رحم اُٹھ گیا ۔۔۔کان کھول کر سُن لو۔۔۔ اللہ تعالی کا لشکر ہی کامیاب ہے اور شیطان کا گروہ ہمیشہ ناکام رہے گا۔۔۔