انسانی ہمدردی کا عالمی دن اوراسلام 

 انسانی ہمدردی کا عالمی دن اوراسلام 
 انسانی ہمدردی کا عالمی دن اوراسلام 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 دنیا بھر میں ہر سال 19 اگست کو انسانیت سے ہمدردی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یہ دن اقوام متحدہ اور فلاحی و امدادی تنظیمیں خصوصی طور پر مناتی ہیں۔اقوام متحدہ نے سن2008میں انسانی ہمدردی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھاجس کے تحت اس عالمی دن کے موقع پر خلق خدا کی بھلائی کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے علاوہ دوسروں کی بھلائی کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اس لئے یہ عالمی دن دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے اس جذبہ کے نام پر وقف ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی اور ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اوراس کی شراکت دار تنظیموں کا مقصددنیا کے تقریبا 109 ملین لاچارا ور بے بس افراد کی ہر طرح سے مدد کرنا ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے تقریبا 28.8 بلین ڈالر فنڈز کی ضرورت ہوگی۔ایک اندازے کے مطابق جب تک موسمیاتی تبدیلی اورزمینی تنازعات کی اصل وجوہات کو بہتر طریقے سے حل نہ کیا جائے تب تک صورتحال بدستور خراب ہوتی رہے گی۔ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق موجودہ سال کے دوران دنیا بھر میں تقریبا 200 ملین سے زائد افراد کو مدد کی ضرورت ہوگی۔


دین اسلام میں ابتداء سے ہی انسانیت اور اس کی بھلائی کے لئے خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لئے وہ کسی طور پر بھی سماج یا معاشرے سے الگ تھلگ زندگی بسر نہیں کرسکتا،کہتے ہیں کہ انسان کی تمام تر مشکلات کا حل بھی سماج میں ہی موجود ہے،مال ودولت کی فراوانی اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجودہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے باہمی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ دین اسلام میں ہمیشہ ان افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوں صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہوتی بلکہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرناحتیٰ کہ کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور اس جیسے دیگر امور خدمت خلق خداکی مختلف اقسام ہیں۔


ہمارے ملک میں خدمت خلق خدا کی اعلیٰ مثال عبدالستار ایدھی مرحوم ہیں جن کی انسانی بھلائی کے حوالے سے خدمات کا اعتراف پوری دنیاکرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی مرحوم کو بچپن میں سکول جاتے وقت اپنی والدہ سے دو پیسے ملاکرتے تھے جن میں سے ایک پیسہ وہ کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے،1951میں آپ نے ایک چھوٹی سی دکان میں ڈسپنسری کھول کر لوگوں کو طبی امداد فراہم کرنا شروع کی،خودڈسپنسری کے سامنے بینچ پر ہی سوجایا کرتے تھے تاکہ مریض کی فوری مدد کرسکیں،ان کے جذبہ کو دیکھ کر کسی نے مدد کی تو ایک چھوٹی سی پک اپ خرید کر ایمبولینس سروس شروع کردی اورخود ڈرائیو کرکے سارا دن شہر کا چکر لگاتے رہتے تاکہ کسی ضرورت مند یا زخمی کی مدد کی جاسکے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے ادارے کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن گئی اور ان کے ادارے کا شمار جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں ہونے لگا۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کے جذبہ انسانیت کو دیکھتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی ہمدردی اور بھلائی کے بارے میں نہ صرف سنجیدگی سے سوچیں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق حقیقی معنوں میں انسانیت کی مدد بھی کریں ا س کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی اورفلاح و بہبود کے لئے بے لوث جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنوں،رضاکاروں اورفلاحی اداروں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے رہنا چاہیئے تاکہ دوسروں میں انسانیت کی خدمت اور انسانوں سے دوستی و خیر خواہی کا جذبہ مزیدپروان چڑھ سکے۔

مزید :

رائے -کالم -