آزادی کے پچھتر سال
آج کے کالم میں سنگاپور، ملائیشیا، ہانگ کانگ کی بات نہیں کریں گے بلکہ آج بات ہوگی 1971ء میں معرض وجود میں آنے والے ملک بنگلہ دیش کی جو آج سے پچاس برس پہلے ہم سے علیحدہ ہوا اور ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا ان پچاس سالوں میں انہوں نے معاشی،اقتصادی، سیاسی ہر میدان میں پاکستان پر برتری حاصل کی جس کی بہت سی وجوہات میں سے سب سے اہم سیاسی استحکام، سیاست میں اندرونی اور بیرونی خلفشار کا نہ ہونا، آئی ایم ایف کے چنگل سے آزادی اور ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ کر کے اربوں ڈالر ملکی زرمبادلہ میں شامل کرنا ہے بنگلہ دیش نے قرض لے کر اپنی عیاشیوں پر خرچ نہیں کیا بلکہ اپنی ایکسپورٹ کے والیم کو اتنا وسیع کیا کہ آج وہ سری لنکا کو بیس کروڑ ڈالر قرض دے کر جنوبی ایشیاء میں قرض دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے سری لنکا کو مشکل کی اس گھڑی میں قرض دے کر اس نے ثابت کر دیا کہ اس کا شمار ترقی پذیر کی بجائے ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت والے ممالک میں ہوتا ہے صاحب علم و عقل لوگوں کے مطابق بنگلہ دیش اس وقت جنوبی ایشیائی ممالک میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن گیا ہے اس نے سری لنکا کو قرض فراہم کر کے سابق امریکی وزیر خارجہ کے قول کو غلط قرار دے دیا جو اس نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش ایشیا کاایک بھکاری ملک ہے 1990ء تک بنگلہ دیش نے بہت سے معاشی چیلنجز کا سامنا کیا اور اپنی تمام تر توجہ صنعت اور زراعت پر مرکوز رکھی اور اس وقت دنیا میں معاشی لحاظ سے بنگلہ دیش ایک سو اکسٹھ ویں اور پاکستان ایک سو چوراسیویں نمبر پر ہے معزز قارئین کرام بنگلہ دیش کی ترقی کی اہم وجہ سیاسی استحکام ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر آنے والا سال گزرے سال سے بہتر رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام نے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچایا اور ابھی بھی ہمارے سیاستدان خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں آجکل ایسی سیاسی نورا کشتی ہو رہی ہے جس میں ہر روز ریاست ہار رہی ہے مرکز میں اگر حکومت تحریک انصاف کے کسی ایسے شخص کو گرفتار کرتی ہے جو ریاست میں انتشار پھیلانے کا مرتکب ہوا تو بدلہ لینے کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ کے اراکین پارلیمنٹ کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں ملکی نظم ونسق کو قائم رکھنے پر پولیس افسروں کے تقرر و تبادلے کیے جارہے ہیں اور اگر اس سے بھی ان کی روحانی تسکین حاصل نہ ہوسکے تو یہ ملک میں فرقہ واریت، صوبائیت اور پارٹی بازی کو ہوا دیتے ہیں جس کا نقصان ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے میں نے وزیراعظم پاکستان کو اپنے یکم جولائی کو شائع ہونے والے کالم "خدارا سر جوڑ کے بیٹھ جاؤ "میں معیشت کی بحالی کے لیے اے پی سی بلانے کی تجویز پیش کی تھی جس پر وزیراعظم نے بارہا تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی دعوت دی لیکن تحریک انصاف ابھی تک اپنی حکومت گرنے کے غم سے باہر نہیں آ سکی اور اس نے اس تجویز کو رد کردیا لیکن پھر بھی حکومت نے ملکی معیشت کو جہاں تک ممکن ہوا سہارا دیا ڈالر کی اونچی اڑان کو روک کر روپے کی قدر میں اضافہ کیا، جس سے اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رویہ دیکھنے کو ملا وطن عزیز ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے نکل گیا الحمد للہ مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کے امکانات روشن ہوئے ہیں جس طرح حکومت نے دوست ممالک سے چار ارب ڈالر اکٹھے کیے ہیں یہ بلاشبہ ان حالات میں بہت مشکل تھا لیکن میرے خیال میں یہ ایک عارضی حل ہے معیشت کو مستقل بنیادوں پر مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے انہی دوست ممالک کو پاکستان میں مختلف پراجیکٹس میں انویسٹمنٹ پر راضی کرے چین،ترکی روس، سعودی عرب سمیت تمام دوست ممالک کو پاکستان میں انڈسٹری لگانے پر آمادہ کریں لیہ، کروڑ لعل عیسن، میانوالی، بہاولپور، قصور میں ہمارے پاس بہت غیر آباد زمینں پڑی ہیں جہاں پر انڈسٹریل اسٹیٹس بنا کر ملائیشیا ماڈل پر ان ممالک کے سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں اگر یہ ممالک اپنی انڈسٹری کا کچھ حصہ پاکستان منتقل کر لیتے ہیں تو یقین کر لیں کہ ہمارے قرض اترنے کی راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی معیشت کی مضبوطی کیلئے سی پیک منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنا ہوگا گوادر پورٹ کو فنگشنل کرنا ہوگا لیکن جب تک ریاست سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گی کوئی بھی پاکستان میں انویسمنٹ کرنے کو تیار نہیں ہوگا میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا ریاست کا خیال کریں ہماری ریاست موجودہ حالات میں کسی قسم کے سیاسی خلفشار کی متحمل نہیں ہو سکتی ایک دوسرے کو ذلیل کرنا چھوڑ دیں پاکستان کا ساتھ دیں ہمیں آزاد ہوئے پچھتر برس ہو چکے ہیں کسی قوم یا ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے یہ بہت وقت ہوتا ہے بہت سے ممالک نے اس سے کم عرصہ میں ترقی کی اور آج وہ پرسکون اور باوقار ممالک گردانے جاتے ہیں جبکہ ہم نے ان گزرے سالوں میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے اور ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کے حکومت کے آخری آئینی سال کو معاشی ایمرجنسی قرار دے کر گزاریں عمران خان صاحب کے پاس وقت نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں تشریف لائیں اور ملکی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں یہ بیڑا بھی آپ کو اکیلے ہی اٹھانا ہوگا اللہ کریم میری ریاست کو محفوظ مضبوط اور مستحکم بنائے آمین