صوفیاء یا بزرگان دین کی جاندار اور موثر آواز نے مخلوق خدا کو ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ مخلوق کو خالق کی طرف بلانے کا آوازہ تھا اوریہ تھا آوازہ ”تو ہی تو دوجا نہ کو“ اور ”دوئی دور کرو“۔ یہی اسلام کا تصور توحید ہے۔ اس کے بعد ”آپ میرا ذکر کریں اور میں آپ کا ذکر کروں گا“ کی تفسیر کا اثر اہل عالم نے دیکھا۔ کٹیا خانقاہ بن گئی اور اس خانقاہ سے علمی و روحانی فیوض وبرکات کے چشمے پھوٹے اور حق وصداقت کی شمعیں روشن ہوئیں۔ پھر اس کے بعد بہر حال ایسا بھی ہوا کہ کہیں کہیں عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آگئے۔ پھر بدعات کا ایک سلسلہ اور پھر اتنا بڑا پروگرام تنقید کی زد میں۔ دیکھنے والوں کو تو شرک تک کا شائبہ ہونا شروع ہو گیا۔ یقینا جب قبور پر زائرین ماتھا ٹیکیں گے تو بات تو ہو گی،کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اسی وجہ سے معروف صوفی، شاعر، محقق، عالم اور ولی اللہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے باقاعدہ فتوی دیا تھا کہ علماء قبروں کا بوسہ نہ لیا کریں ورنہ جہلاء قبروں کو سجدے کرنا شروع کر دیں گے۔اس آواز نے اہل عقل و دانش کو تو پوری طرح متنبہ کر دیا، لیکن سب لوگ ایک جیسے تھوڑی ہوتے ہیں۔ تاہم مایوسی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ آواز اٹھانا اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا بھی بزرگان دین کا ہی طریقہ رہا ہے۔اس سلسلے میں پیر نصیر الدین نصیر گولڑہ شریف نے آگے بڑھ کر اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور ان پر اس لئے بھی ایسا کرنا لازم تھا کیونکہ وہ اور ان کے دیگر رفقائے کار پیر مہر علی شاہ کے علوم کے وارث ہیں۔
وہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے پڑپوتے، پیر غلام محی الدین المعروف بابو جیؒ کے پوتے،پیر سید غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی کے فرزند ِ ارجمند اور پیر شاہ عبدالحق گیلانی المعروف چھوٹے لالہ جی کے بھتیجے تھے۔ 14نومبر 1949ء کو گولڑہ شریف راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔وہ کسی سکول یا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہ تھے تاہم انہوں نے اپنے دور کے جید علماء سے علم حاصل کیا تھا اور اپنے دادا بابو جی سے اکتساب فیض کیا۔انہوں نے سات زبانوں میں شاعری کی اسی لئے ان کو شاعر ہفت زبان کہا جاتا ہے۔ فارسی اردو اور پنجابی کے باکمال شاعر تھے۔ جملہ اصناف سخن میں انہوں نے شاعری کی ہے تاہم نعت، رباعی اور غزل کا معتبر حوالہ۔ ان کی نعتیہ شاعری تو خصوصاسبحان اللہ سبحان اللہ۔ آپ کی کل36تصانیف ہیں۔ پیمان شب، دیں ہمہ اوست، فیض نسبت، رنگ نظام، آغوش حیرت، عرش ناز اور دست نظران کی معروف شاعری کی کتب ہیں۔ نثر میں نام ونسب، امام ابو حنیفہ اور ان کا طرزِ استدلال، راہ و رسم منزل ہا، قرآن مجید کے آداب تلاوت، لفظ اللہ کی تحقیق اور اسلام میں شاعری کا تصور وغیرہ قابل ذکر تصانیف ہیں۔ شاعری اور نثر سے ہٹ کر ان کا فن خطابت کا اپنا ایک رنگ تھا۔ اور اسی رنگ نے ان کو ایک نویکلے رنگ میں رنگ دیا تھے اور ان کو بھی اس بات کا پوری طرح شعوری احساس تھا۔ ان کے بقول سابق صدرِ پاکستان (مرحوم) پرویز مشرف نے اُنہیں مشائخ کانفرنس میں مدعو کیا تھا ویسے تو پیر صاحبان گولڑہ شریف سرکاری تقاریب سے مکمل طور پر احتراز کرتے تھے، لیکن نصیرالدین نصیر نے یہ دعوت قبول کرلی اور دورانِ ملاقات صدر مذکور نے اُنہیں کابینہ میں شمولیت کی دعوت دے دی، اُنہوں نے جواب دیا جنرل صاحب ہم اپنی نوعیت کے بادشاہ ہیں اور بادشاہ کبھی وزیر نہیں بنتے۔ صوفی کی پہچان یہ ہے کہ وہ متوکل الی اللہ کی اصل تصویر پیش کرے۔ اِس ضمن میں بھی ان کی زبانی۔ قاری خوشی محمد جنرل ضیاء الحق کے دور میں سرکاری تقاریب میں قرأت کرتے تھے اورایک دن انہوں نے پیر صاحب مذکور سے کہا کہ وہ جنرل صاحب کے بہت قریب ہیں اور اگر کوئی ان کے ذمے خدمت ہو تو بندہ حاضر ہے، جس پر ان کی شان بے نیازی نے رنگ دکھایا اور برجستہ جواب کچھ یوں دیا کہ قاری صاحب میں اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں میرے لائق بھی کوئی خدمت ہو تو میں حاضر ہوں۔ حاضر اور ناظر کے مسئلے پر اپنی نعت کے ایک شعر میں قوم کی آنکھیں کھول دیں۔(حاضروناظر ونور و بشر و غیب کو چھوڑ۔ شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہے) بعض بزرگان دین کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ دنیا کی نظروں سے چھپ کر زندگی گزار دی جائے تاکہ عبد اور معبود کے درمیان کوئی تیسرا حائل نہ ہو، لیکن خیر کا کام اور وہ بھی مخلوق خدا کے لئے یہ کام بھی صوفیاء نے ہی کیا ہے اور اسی لئے خلق خدا نے بھی ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا حق ادا کر دیا۔صوفی کے پیش نظر ایک ہی صورت ہوتی ہے اور وہ ساری زندگی صورت اور بے صورت کی بات کرتا ہے اور اسی بات سے اس کی بات بن جاتی ہے اور آنے والے دِنوں میں اس کی بات ہوتی رہتی ہے۔ آج مذہبی محافل ہوں پریس الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ہو آپ کو کہیں نہ کہیں پیر غلام نصیر الدین نصیر اپنے مخصوص اور شوخ لہجے میں اُمت مسلمہ کو جھنجھوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کا بڑا دبنگ لہجہ تھا۔ تعلی شاعری کی خوبصورتی ہے اور یہ پہلو ان کی تقریر میں بھی نمایاں تھا۔ وہ بنیادی طور پر ایک عالم،فاضل اور درد دِل رکھنے والے انسان تھے ان سے انسان کی ہزیمت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ حضرت انسان جب اپنے معاملات میں کسی بھی طرح اپنے مقام ومرتبے پہ مصلحت کا شکار ہو جاتا تھا وہ اس بات پر اپنا بھرپور ردعمل دیتے تھے ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب آپ کی نظر خدا پر ہو(تیرے حاسدوں کو ملال ہے یہ نصیر فن کا کمال ہے۔۔۔تیرا قول تھا جو سند رہا تیری بات تھی جو کھری رہی) قول و فعل میں تضاد نے تو ہمیں مجموعی طور پر متاثر کیا ہے اور ہم دنیا والوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں بلکہ مجبوری میں دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جبکہ ہمارا رازق وہ ہے جو کیڑے کو پتھر سے رزق عطاء کرتا ہے، جو آسمان سے پانی برساتا ہے تو زمین انواع و اقسام کے پھل اور سبزیاں اگا دیتی ہے اور جس نے چرندوں اور پرندوں کو ہمارے لئے مطیع بنا دیا ہے۔ پھر جب اپنے جیسوں کے سامنے گردنیں جھکتی ہیں تو مسجود ملائک۔۔اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ خیر حق بات تو کرنا پڑے گی۔ آپ نہیں کریں گے تو کوئی اور کرے گا۔عصر حاضر میں شرک، بدعات اور خرافات کے خلاف سید نصیر نے اپنی تحریر اور تقریر میں بھر پور آواز اٹھائی اور خوب اٹھائی۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل تصوف تصور شیخ کے بارے میں افراط تفریط کا شکار ہوگئے تھے اور بیعت کے بارے میں پوری طرح لوگ آگاہ نہیں تھے۔اس سلسلے میں بھی انہوں نے بڑی جرات سے خیالات کو ازسر نو مرتب کرنے پر ہم سب کو دعوت فکر دی اور روایتی پیری مریدی کو بھی انہوں نے ٹچ کیا اور اولیاء کرام کا پیغام بابت معرفت الٰہی کا اعادہ کیا اور دنیا والوں کو من کی دنیا میں ڈوب کر اپنے رب تک پہنچنے کا طریقہ اپنے مخصوص انداز میں سمجھایا۔