سی آئی اے لاہور پولیس نے تو کمال ہی کردیا

  سی آئی اے لاہور پولیس نے تو کمال ہی کردیا
  سی آئی اے لاہور پولیس نے تو کمال ہی کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی صدی اور نئے ہزارئیے میں داخلے کے بعد دنیا میں جہاں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہیں لوگوں کے ذہن بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ جدید ایجادات، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اورمشینوں کی حکومت نے لوگوں کا احساس مروت کچل دیا ہے۔خون سفید ہونا ایک قدیم محاروہ ہے لیکن اس دور میں لوگوں کا خون واقعی سفید ہوگیا ہے اور وہ اولاد اپنے ماں باپ کی بے عزتی کرنے یا ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ لیکن لاہور میں تو ایک نوجوان نے رشتوں کے احترام، اخلاقی حدود و قیود کی ساری حدیں پار کرلیں۔ اس نے اپنے ہی باپ کو جس نے اسے محنت مشقت کی کمائی سے پروان چڑھایا، پال پوس کر جوان کیا، جلد دولت حاصل کرنے کی لالچ میں خاک و خون میں نہلا دیا۔ 2اگست کے روز تحریک انصاف کے رہنما اور نجی ہسپتال کے مالک ڈاکٹر شاہد صدیق کوفائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ تھانہ کاہنہ کی حدود  ویلنشیا ٹاؤن میں نماز جمعہ کی نماز ادا کرکے باہر نکلے تھے۔ ڈاکٹر شاہد صدیق پر فائرنگ کرنے والے شخص سمیت چار افراد موقع پر موجود تھے، ملزمان جائے وقوعہ سے کار میں فرار ہوئے۔نامعلوم حملہ آوروں نے ڈاکٹر شاہد صدیق کو 4 گولیاں ماری تھیں۔غربت میں ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرشاہد صدیق لاہور کے ارب پتی بزنس مین اور سیاسی کارکن تھے۔ ارب پتی کیسے بنے یہ کہانی بھی بڑی پُراسرار ہے۔ کچھ گھرانوں کے بگڑے ہوئے رئیس زادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کی دولت پر عیش کرنا چاہتے ہیں۔جن والدین کو ان کی یہ عادات پسند نہ ہوں وہ انہیں روکتے اور ٹوکتے بھی ہیں پھر کئی گھرانوں میں والدین اور بچوں کے اس عمل سے تفریق پیدا ہونے کے ساتھ ان کے درمیان نفرت بڑھ جاتی ہے اور بات حد سے بڑھ کر قتل تک پہنچ جاتی ہے۔’ڈاکٹر شاہد صدیق کے ساتھ بھی یہی ہوا‘یہ بچوں کو راہ راست پر رکھنے کی کوشش میں گھر میں اکیلے رہ گئے۔ڈاکٹر صاحب کا بڑا بیٹا قیوم شاہد اعلیٰ سوسائٹی کے چکر میں پھنس گیا گرل فرینڈز بھی بنائیں اور کوکین بھی لینے لگا جس کے بعد اس کا والد سے جھگڑا شروع ہو گیا،گھر کا ماحول کھچاؤ کا شکار ہو گیا، اس کے گروپ میں شہریار نام کا ایک لڑکا بیٹھتا تھا‘ یہ ایک خوش شکل لڑکا تھا اور اپنی شکل وصورت کی وجہ سے ماڈلنگ کرتا تھا اور ایکٹنگ میں منہ مارتا تھا لیکن خاندانی لحاظ سے غریب اور عملی طور پر مکمل فارغ تھا‘ اس کی ساری کامیابیاں زبانی جمع خرچ تھیں اور اس کی آمدنی بیس تیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی اور یہ اپنے اخراجات قیوم شاہد جیسے نوجوانوں اور آنٹیوں سے پورے کرتا تھا‘ اس کا والد اور چچا موٹر سائیکل اور چھوٹی موٹی گاڑیاں چوری کرتے تھے‘ شہریار کا زیادہ تر وقت قیوم شاہد کے ساتھ گزرتا تھا‘ ڈاکٹر شاہد صدیق جوبلی ٹاؤن میں ایک پلازہ بنا رہے تھے۔یہ جنوری 2024 میں اپنی سائٹ پر گئے تو کسی نے ان پر گولی چلا دی ان پر سات فائر ہوئے مگر یہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے‘ حملہ آور بھاگ گیا‘ پولیس آئی‘ اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج جمع کیں تو انھیں کیمرے میں ایک شخص کی جھلک مل گئی‘ اس کی شناخت کی کوشش کی گئی مگر شناخت نہ ہو سکی‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی زیادہ پیچھا نہیں کیا‘ اس کے بعد جمعہ دواگست کو ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے تیمور کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئے‘ مسجد کے قریب ان پر دوسرا حملہ ہوا‘ ان پر پانچ گولیاں چلائی گئیں جن میں سے چار انھیں لگ گئیں اور یہ موقع پر ہلاک ہو گئے تاہم بیٹا تیمور محفوظ رہا‘ یہ کیوں کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن تھے لہٰذا یہ قتل ایجنسیوں کے کھاتے میں پڑ گیا‘ اس تاثر کو ان کے خاندان نے بھی ہوا دی اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی‘ دوسرے دن ان کی نماز جنازہ ہوئی‘ جنازہ ان کے بیٹے قیوم شاہد نے پڑھایا‘ بیٹا اداس اور پریشان بھی تھا بہرحال قصہ مختصر آئی جی پولیس اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کے نوٹس لینے پر آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے سربراہ  ڈی آئی جی عمران کشور کی ٹیم نے تفتیش شروع کی اور کمال کر دیا۔پولیس کو موقع واردات پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک گاڑی نظر آئی‘ کیمروں کے ذریعے گاڑی کو ٹریک کیا گیا تو موقع واردات سے سات کلو میٹر دور پہنچ کر اس کی نمبر پلیٹ تبدیل ہو گئی‘دونوں نمبر پلیٹس کی تفصیلات لی گئیں تو معلوم ہوا گاڑی وہاڑی میں رجسٹرڈ ہے‘ مالک سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا میں نے گاڑی بیچ دی تھی‘ نئے مالک سے پتا چلا اس نے بھی بیچ دی تھی‘ یہ گاڑی اس کے بعد تیسرے شخص کے ہاتھوں بکی اور آخر میں اسے ایک خاتون نے خرید لیا‘ پولیس خاتون تک پہنچی تو اس نے بتایا‘ میں نے یہ گاڑی رینٹ پر دے رکھی ہے‘ پولیس ”رینٹ اے کار“ کے آفس پہنچ گئی‘ اس نے بتایا‘ گاڑی فلاں شخص نے کرائے پرلے رکھی ہے یوں ملزم کا شناختی کارڈ اور نام نکل آیا۔پولیس نے رینٹ اے کار والے کو ڈاکٹر صاحب پر جنوری میں حملہ کرنے والے شخص کی تصویر دکھائی‘ اس نے دیکھتے ہی تصدیق کر دی یہ گاڑی اسی شخص نے کرائے پر لی تھی یوں ثابت ہو گیا جنوری اور اگست میں حملہ کرنے والا شخص ایک ہی ہے اور اس کا نام اور پتا بھی نکل آیا‘ اس شخص کے شناختی کارڈ سے موبائل کالز کا ڈیٹا نکالاگیا تو وہ شہریار کا چچا نکلا‘ شہریار اور اس کا والد واردات کے دوران قاتل سے مکمل رابطے میں تھے‘ پولیس نے اس کے بعد شہریار اور قیوم شاہد کے موبائل فون کا ڈیٹا دیکھا تو یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے جس کے بعد پولیس نے اسی شام شہریار کو اٹھا لیا‘ یہ انتہائی کمزور ثابت ہوا اور اس نے دس منٹ میں بتا دیا قیوم شاہد نے اپنے والد کو مروانے کے لیے مجھے ہائر کیا تھا‘ جنوری میں اس نے ہمیں چار لاکھ روپے دئیے تھے اور اب دو کروڑ میں سودا ہوا تھا‘ پولیس نے اس کے بعد قیوم شاہد کو بلایا‘ اسے بٹھایا‘ پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا اور صرف ایک سوال کیا ”شہریار کون ہے؟“ اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔پولیس نے اس کے بعد اسے بتایا تم نے اسے پندرہ لاکھ روپے دئیے تھے جن میں ایک نوٹ پھٹا ہوا تھا‘ اس کے بعد قیوم کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ یہ مان گیا والد کو اس نے قتل کرایا تھا‘ شہریار کے والد اور چچا کو 15 لاکھ روپے دئیے تھے اور باقی ایک کروڑ 85 لاکھ روپے وراثت میں حصہ ملنے کے بعد ادا کرنے تھے‘ پولیس نے پوچھا ”والد کا سب کچھ جب آپ کا تھا پھر آپ نے اسے قتل کیوں کرایا؟“ قیوم کا جواب تھا ”یہ سب کچھ میرا تھا مگر والد مجھے استعمال نہیں کرنے دیتا تھا‘ یہ دولت اگر مجھے بڑھاپے میں ملتی تو میرے کس کام آتی لہٰذا میں نے اسے راستے سے ہٹا دیا“ پولیس یہ سن کر حیران رہ گئی بیٹے کو والد کے قتل پر کوئی ندامت بھی نہیں تھی اگر تھی تو اسے پکڑے جانے کی پریشانی تھی‘ اس رویے نے پولیس کے رونگٹے بھی کھڑے کر دئیے۔تفتیش کے مطابق اس قتل سے مقتول کی بیگم،دوسرے بیٹے تیمور ”مدعی“ اور گرل فرینڈکاکوئی تعلق نہ ہے جبکہ گنہگار تمام ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔

  

مزید :

رائے -کالم -