کشمیریوں کا موقف، توجہ کا مستحق
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حریت کانفرنس کے وفد کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان اپنے موقف پر قائم ہے اور کشمیریوں کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس (مقبوضہ کشمیر) کا سات رکنی وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہاں اس وفد نے وزیراعظم کے علاوہ کشمیر کمیٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ وفد کے قائد میر واعظ عمر فاروق نے بار بار یہ بات کہی کہ تنازعہ¿ کشمیرکے تین فریق ہیں، پاکستان اور بھارت کے علاوہ کشمیری بھی ہیں اور دراصل متاثرہ اور حقیقی فریق خود کشمیری ہیں اس لئے کشمیری قیادت کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے کیونکہ کشمیریوں کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
میر واعظ عمر فاروق کی یہ بات منطقی ہے۔ تاہم پاکستان اور بھارت تنازعہ¿ کشمیر پر بات کرتے ہیں تو یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کے تحت ہوتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے کسی بھی مرحلے پر کشمیریوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہمیشہ یہ کہا گیا کہ تنازعہ¿ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کی روشنی میں حل کیا جائے۔ لیکن عملی شکل یہ ہے کہ کشمیری قیادت دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کا تیسرا فریق نہیں بن پائی ۔ حریت کانفرنس کے رہنماﺅں کا یہ دورہ خوش آئند ہے اور میرواعظ کے مطابق یہ دورہ مسئلہ کشمیر کے حل میں معاون ہوسکتا ہے۔
جہاں تک کشمیریوں خصوصاً مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کا تعلق ہے تو ان کی جدوجہد جاری ہے اور اب وہ سیاسی سطح پر جمہوری انداز میں تحریک چلائے ہوئے ہیں، کشمیریوں کو کشمیر کے اندر بھارتی جارحیت کا سامنا ہے اور وہ مصائب برداشت کرتے اور قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ اس لئے پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ آزادی¿ کشمیر کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے۔ یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر مضبوط موقف رکھتا ہے اور اس سے منحرف نہیں ہوا۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے زیادہ متحرک ہونا چاہئیے، اور یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ کشمیری اصل فریق ہیں۔ یہ مطالبہ غلط نہیں کہ کشمیریوں کو بھی مذاکرات میں شامل رکھا جائے۔ اس کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنا وزارت خارجہ کا کام ہے البتہ کشمیریوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اندر اختلافات کو دور کریں۔ جماعتیں اپنی اپنی جگہ قائم رہیں لیکن بھارت سے آزادی کے لئے تو یکساں موقف اختیار کریں، پاکستان کو اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ کشمیر کے سینئر رہنما سید علی گیلانی اس وفد میں شامل نہیں، اُن کا نقطئہ نظر حریت کے دوسرے رہنماﺅں سے مختلف ہے، لیکن کشمیر اور کشمیریوں کے لئے اُن کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مذاکرات میں دوسرے کشمیری رہنماﺅں کے ساتھ اُنہیں بھی شریک کیا جانا چاہئے۔ ٭