علامہ کا خطاب

علامہ کا خطاب
علامہ کا خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


علامہ طاہرالقادری کی زندگی سنسنی خیزی سے عبار ت ہے، شہرت ان کے گھر کی باندی ہے ، علامہ ملک سے جارہے ہوںیا ملک واپس آرہے ہوں ، ان کے کھڑاک بڑے دلپذیر ہوتے ہیں ،اب بھی اتنے عرصے بعد ملک لوٹ رہے ہیں تو لگتا ہے جیسے پاکستان کی سیاست پر ریفریشر کورس کر کے آرہے ہیں اور پاکستان کے جملہ سیاسی مسائل کی کنجی علامہ کے ہاتھ میں ہی ہے!
پاکستان کے عوام مولویوں سے کسی سیاسی کردار کی توقع کم ہی باندھتے ہیں، وہ پچھلے 65برسوں میں مولوی کو ایک مخصوص رول سے آگے کچھ دینے کو تیار نہیں ہو سکے، مثال کے طور پر مفتی محمود کا ایک مخصوص رول تھا، وہ رول ختم ہوا تو مفتی صاحب کی دھاک تھم گئی، یہی حال مولانا فضل الرحمٰن کا ہے جو امریکیوں سے گلہ بھی کر چکے ہیں کہ ان کے بارے میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر کیوں نہیں سوچا جاتا!
لیکن جناب طاہر القادری صاحب خالی مولوی نہیں بلکہ علامہ بھی ہیں اور اس بار وہ سیاست نہیںریاست بچاﺅ کا نعرہ لے کر آرہے ہیں،
بہت سوں کو 23دسمبر کا انتظار ہے، لگتا ہے کہ بارش کو بھی اس دن کا انتظار ہے کہ اب تک کھل کر نہیں برسی !...ویسے ابھی وقت ہے ، تحریک منہاج القرآن والے چاہیں تو شاہرا ہ دستور اسلام آباد یا مزار قائد کراچی کو متبادل مقامات کے طور پر مشتہر کر سکتے ہیں، علامہ کے چاہنے والے ملک کے کونے کونے سے کھنچے چلے آئیں گے، یوں بھی کراچی میں اس وقت ریاست کو بچانے کی جس قدر ضرورت ہے ، ملک میں اور کہیں نہیں، اور پھر یہ عجیب بھی لگے گا کہ ریاسی مسائل تو کراچی میں ہیں لیکن خطاب لاہور میں کیا جارہا ہے سپریم کورٹ بھی ، کراچی میں کچہری لگا کر فیصلہ دے چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ حالات کی خرابی کا سبب ہیں، اس لئے علامہ اگر مزار قائد پر ریاست کو بچانے کی تقریر کریں تو زیادہ معنی خیز ہو، لیکن علامہ نے اس کارِخیر کے لئے مینار پاکستان کو چنا ہے، عمران خان کے بعد اگر کوئی مینار پاکستان پر عظیم الشان جلسہ کرنے کی ہمت کر رہا ہے تو وہ علامہ طاہر القادری ہیںکیونکہ ایسی ہمت تو ابھی تک نواز شریف بھی نہیں دکھا سکے ،ڈر اس بات کا ہے کہ اگر علامہ واقعی بیس لاکھ نفوس کو مینار پاکستان جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عمران خان کی سونامی میں رہا سہا دم بھی نکل جائے گا اور لوگوں کا تبدیلی پر سے یکسر ایمان اٹھ جائے گا!
لیکن علامہ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سننے والے بہت ہیں مگر ان کی ماننے والے کم ہیں، تب بھی ایسا ہی ہوا تھاجب انہوں نے پاکستان عوامی تحریک بنائی تھی ، اس بار علامہ یہ ثابت کرنے آئے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ریاست پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، ایسا ہے تو پچھلے 65برسوں کے نصف حصے میں تو اقتدار فوجی آمروں کے پاس رہا ہے ، ان سالوں کا کیا جواب ہوگا،کیونکہ ایک نیا نظام تو تب ہی آ سکتا ہے جب مروجہ نظام کو ٹھونک بجا کر چیک کرلیا گیاہو، لیکن ایسے ملک میں جہاں آمر آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی بات کرتے ہوں وہاں پر آئین، اس میں دیئے گئے سیاسی نظام اور اس کے تحت سیاسی عمل میں مصروف سیاسی قیادت کو یکسر رد کرنا زیادتی ہے، خاص طور پر جب اس ملک میں آمروں کو جب بھی ریفرنڈم کی ضرورت پڑی ہو تو کاروباری طبقے کے علاوہ اگر کوئی دوسرا طبقہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح آمر کے پیچھے کھڑا ہوا ہو تو وہ دینی طبقہ ہو،حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان کو تو سیاست ہی بچاسکتی ہے کیونکہ دین میں ریاست کا تصور ہرگز وہ نہیں جس تصورکی بنیاد پر 1947میں پاکستان معرض وجود میں آیا ، اسی لئے تو اس وقت کے جید علماءکو اس پر شدید اعتراض تھا!
قانون کی نظر میں ریاست بھی ایک فرد کی طرح حقوق و فرائض سے عبارت ہوتی ہے، سیاست ریاست کے شہریوں کا بنیادی آئینی حق بھی ہے اور فرض بھی ہے جس کے نتیجے میں ریاست شہریوں کے مد میں عائد ہونے والے جملہ حقوق ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے، ریاست کو سیاست سے جس قدر دور رکھا جائے گا ، شہریوںکے حقوق کا اتنا ہی نقصان ہوگا، یوں بھی ریاست کو بچانے کا کام شہریوں کا نہیں فوج کا ہوتا ہے ،کیونکہ شہریوں کا کام ریاست بچانانہیں ، ریاست کو چلانا ہوتا ہے اور اگر ریاست میں سسٹم ڈیلیور نہیں کرتا تو اس کے سیاسی کم، معاشی اسباب زیادہ ہوتے ہیں!
اسی طرح چونکہ ریاست کے خدوخال آئین سے متعین ہوتے ہیں، اس لئے آئین کا تحفظ ہی ریاست کا تحفظ ہوتا ہے، آئین سے روگردانی کسی طور بھی ریاست کے تحفظ پر منتج نہیںہو سکتی، یہی وجہ ہے ایمرجنسی کی گنجائش بھی آئین ہی فراہم کرتا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ آئین جملہ مسائل کا حل دیتا ہے لیکن کسی طور بھی سیاست یا سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا قائل نہیں ہوتا!
مختصر یہ کہ ریاست کوئی نظریہ یا آئیڈیالوجی نہیں ہوتا جسے تقریروں سے بچایا جا سکے، ریاست کو آئین اور قانون پر عملدرآمد سے ہی بچایا جا سکتا ہے، آئین ریاست کو قائم رکھنے کا مکمل طریقہ فراہم کرتا ہے اوراس پر عمل پیرا ہو کر ہی ریاست کو بچایا سکتا ہے، ہمیں امید ہے کہ علامہ صاحب کا خطاب آئین اور قانون کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرے گا، لیکن اگرا س کا مقصد بھی عام انتخابات میں تاخیر ہے تو سوائے اس کے اورکیا کہا جا سکتا ہے کہ !
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے!

مزید :

کالم -