شہید حکیم محمد سعید کاتعلیمی تجربہ مدینة الحکمہ :یگانہ قلمکار کا حیرت کدہ

شہید حکیم محمد سعید کاتعلیمی تجربہ مدینة الحکمہ :یگانہ قلمکار کا حیرت کدہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عالی مرتبت شہید حکیم محمد سعیدکی شہادت کے بعد قائم ہونے والا ادارہ¿ سعید، اس کے قیام کا بنیادی مقصد کہ حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی میں مختلف شعبوں میں جو کام کئے اور جو ادارے قائم کئے،ان کے حوالے سے تمام مواد کو نا صرف یکجا کیا جائے، بلکہ ان تمام دستاویزات کو سائنٹیفک اندا زمیں محفوظ کیا جائے اور جو صاحبان علم شہید حکیم محمد سعید پر کو ئی تحقیق اور ریسرچ کرنا چاہیں، انہیں ان کی مطلوبہ معلومات فراہم بھی کی جائیں۔اس سلسلے میں اب تک حکیم محمد سعید کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہزاروں خطوط ،تصاویر اور دیگر دستاویزات کمپیوٹر کے ایک خصوصی سافت ویئر کے ذریعے محفوظ کئے جا چکے ہیں ۔حکیم سعید کی تقاریر کی تقریباً دو ہزار ویڈیوز بھی ادارہ¿ سعید میں محفوظ کی گئی ہیں، جبکہ حکیم سعید کے بارے میں ایک جامع ویب سائٹ بھی بنائی ہے ۔اس کے علاوہ ادارہ¿ سعید کی طرف سے شہید حکیم محمد سعید کی حیات و خدمات پر سی ڈی اور ڈی وی ڈیز بھی تیار کرائی گئی ہیں۔ عمومی دلچسپی کے لئے اسی عمارت میں ایک میوزیم بھی قائم کیا گیاہے ،جہاں جا کر آپ شہید حکیم محمد سعید کی زندگی کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح ایک کس طرح شخص نے انتہائی سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے ادویہ سازی کا اتنا بڑا ادارہ ہمدرد قائم کر دیا،تعلیم کے شعبے میں کام کرتے ہوئے سات فیکلٹیز پر مشتمل ہمدرد یونیورسٹی،نونہالوں کی تعلیم کے لئے ہمدرد پبلک اسکول قائم کر دیئے، جبکہ رفاہی کاموں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
حال ہی میں ادارہ¿ سعید کی جاب سے ”شہید حکیم محمد سعید یادگاری لیکچر“کا اہتمام ”مدینة الحکمہ“ میں کیا گیا ۔سب کے جانے پہچانے ادیب ،صحافی اور کالم نگار محترم انتظارحسین مہمان مقرر کی حیثیت سے شریک ہوئے ۔ادارہ¿ سعید کی جانب سے راقم کو بھی خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی....یگانہ قلم کار محترم انتظار حسین نے اپنے احساسات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ”مَیں اپنی نجی مصروفیات کے حساب سے ابھی مذبذب تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ آپ کو کراچی پہنچ کر مدینة الحکمہ چلنا ہے ۔مدینة الحکمہ کا نام سنتے ہی گزرے برسوں کے بھولے بسرے وہ دن اچانک حافظے میں جی اُٹھے اور میرے تصور میں جگمگانے لگے ۔اہل شام ہمدر دکے اہتمام میں ایک رنگارنگ قافلہ لاہور سے کراچی روانہ ہوا ۔اس رنگارنگ قافلے میں کیا کیا لوگ تھے ۔کوئی شاعر،کوئی صحافی،کوئی استاد،کوئی اہل علم۔گردِ کارواں بن کر ساتھ اس کارواں کے ہم بھی تھے ۔کراچی سے آگے بس کا سفر شروع ہوا ۔کیا اوبڑ کھابڑ رستہ تھا ۔شہر کی گہما گہمی پیچھے رہ گئی۔جہاں جا کر قافلہ رُکا ،وہ کتنی بے آباد جگہ تھی ۔ہم حیران کہ ہمارے حکیم صاحب نے کہاں اللہ میاں کے پچھواڑے جا کر مدینة الحکمہ بسانے کی ٹھانی ہے۔ خیر بنیاد اس مبارک نگر کی اس طرح رکھی گئی کہ سب یارانِ قافلہ نے ایک ایک اینٹ رکھی اور بنیاد ڈالنے والوں میں شامل ہو گئے “۔
اب جو ادھر سے بلاوا آیا اور اس اطلاع کے ساتھ کہ اب وہ ویرانہ ایک شادآباد نگر ہے،علوم کاچرچاہے،اہل دانش کی گہما گہمی ہے،علم و حکمت کے پیاسوں کی سیرابی کا سامان مہیا ہے ۔حیرانی ہی حیرانی -پھر سوچا کہ سنی سنائی پر اعتبار مت کرو ،چل کر اپنی آنکھوں سے دیکھو ،سو دیکھ رہا ہوں اور حیران ہو رہا ہوں اور الف لیلیٰ کا ابو الحسن بنا ہو اہوں ۔حیرانی اس حساب سے بھی ہوئی کہ پاکستان میں خیر سے کتنے اہل ثروت برا جتے ہیں۔ دولت میں کھیلتے ہیں ،عیش کرتے ہیں ،چین کی بنسری بجاتے ہیں ۔ان کی دانست میں دولت کا مصرف ہی کچھ اور ہے ۔ ادھر تقسیم کے ہنگام میں ایک نوجوان دلی سے دامن جھاڑ کر اُٹھا ،خالی ہاتھ پاکستان پہنچا۔ساڑھے بارہ روپے ماہانہ کرائے کا فرنیچر لیا اور ہمدرد دواخانے کا آغاز کیا ۔کہتے ہیں کہ ”مَیں نے فن طب کے وقار اور بزرگوں کی روایت کا احترام کیا، مطب میں مریضوں کی خدمت کو شعار بنایا اور فیس کے نام پر ایک پیسہ نہیں لیا “۔فیس نہ تب لی تھی، نہ اس کے بعد، جب ہمدر دٹرسٹ اتنا امیر ہو گیا کہ اس نے علم و حکت کے نام پر ایک شہرآباد کر ڈالا ۔یہ سن لیجئے کہ ہمدرد ٹرسٹ تو امیر ہوتا چلا گیا ،مگر حکیم صاحب کا وہی حال اور وہی پرانی چال ۔روز رات کو شیروانی اپنے ہاتھ سے دھوئی، مَیں صبح کو زیب تن کی ۔ گھر سے قدم نکالا تو سر سے پیر تک سفید براق۔ کسی نے پوچھا کہ آپ جاڑے ،گرمی، برسات،سفیدشیروانی پہنے نظر آتے ہیں ۔ اس کی کوئی خاص وجہ-جوا ب دیا کہ سفید لباس حضور رسولِ مقبولﷺ کی سُنت ہے ۔یہ جواب اپنی جگہ بجا ہے، مگر جب جب ہم نے حکیم صاحب کو اس سے نمودار دیکھا کہ سفید اچکن،چوڑی دار سفید پاجامہ،پیروں میں سفید سلیم شاہی جوتی ،تو ہمیں لگا کہ دلی کی تہذیب حکیم صاحب کی صورت میں مجسم ہو کر نمودار ہوئی ہے۔
ارے جب ہی تو حکیم صاحب طب کو پیشہ بتانے والے کو فوراً ٹوکتے تھے کہ پیشہ نہیں ،فن شریف ہے۔ مریض مطب میں جُگ جُگ آئیں ،کوئی فیس نہیں لی جائے گی اگر نادار ہیں تو دوا بھی مفت ملے گی ۔ ایک حکیم زادہ دامن جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہوتاہے اور دلی سے نکل کر پاکستان میں آکر ڈیراکرتاہے ۔خالی ہاتھ آیا تھا، مگر ایک دُھن ہے کہ کچھ کر کے دکھانا ہے اور کیا کرامات کی کہ جس ادارے کا آغاز ساڑھے بارہ روپے کے سرمائے سے کیا تھا، اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنا فروغ پایا اور پیسے کی اتنی فراوانی ہوئی کہ بے منت ایک پورا کلچر کمپلیکس مدینة الحکمہ کے نام سے کھڑا کر دیا ۔ اس طرح بھی کوئی ادارہ اس ملک میں قائم ہوا کہ نہ کسی دھنّا سیٹھ کا شرمندہ¿ احسان ہونا پڑا ،نہ سرکاری امداد کے لئے ہاتھ پھیلانا پڑا۔ تو پھر کیا حکیم صاحب کے پاس الہٰ دین کا چراغ تھا۔اگر نہیں تو پھر کیسے ؟....عقل حیران کہ اس تہذیب کے خاکستر سے نکلی ہوئی چنگاری نے کیا کیا گل پھول کھلائے ۔تعلیمی تجربہ اور اتنے بڑے پیمانے پر اور اس شان سے کہ تعلیم کی روشنی دیہات کی گری پڑی مخلوق کے جھونپڑوں تک پہنچ گئی ۔ اس شہر علم و حکمت کو دیکھ کر اگر اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے کوئی شخصیت یاد آ رہی ہے، وہ سر سید احمد خان ہیں اور ایک طویل عرصے کے بعد یہاں شہید حکیم محمد سعید کی شکل میں ایک اور سر سید احمد خان جنم لیتا دکھائی دیا ۔حکیم صاحب نے مدینة الحکمہ آباد کر کے کیا خوب تعلیمی تجربہ کیا ہے اور آج مَیں مدینة الحکمہ میں نہیں، بلکہ کسی حیرت کدہ میں سانس لے رہا ہوں۔    ٭

مزید :

کالم -