مذاکرات کی بحالی

مذاکرات کی بحالی
 مذاکرات کی بحالی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پا کستان اور بھارت کے مابین مذاکرتی عمل کی بحالی (جسے اب ۔۔۔Comprehensive Bilateral Dialogue۔۔۔کا نا م دیا گیا ہے) یقیناًایک انتہائی مثبت قدم ہے۔پیرس میں نواز شریف اور مودی کے مابین 167سیکنڈ پر مبنی ملا قات نے اپنا اثر کر دکھا یا ۔ بنکاک میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین بیک ڈور ڈپلو میسی کے تحت ہونے والی ملاقات نے بھی تعلقات میں جمی برف کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا،تاہم مذاکرات کی بحالی پر ایک بنیا دی سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ مودی حکومت کو پا کستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے کن عوامل نے مجبور کیا؟ کیونکہ مودی نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے خلاف انتہا ئی شدت پسندانہ رویہ اختیا ر کیا تھا، مودی ایل او سی اور ورکنگ با ؤنڈری پر کشیدگی کے دوران ایسے بیا نات سے جنگی ماحول کو ا بھا رتے رہے کہ ’’ اب سرحد وں پر موجود بھا رتی سپا ہی پاکستان کو نا کوں چنے چبوائیں گے‘‘۔ مودی نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر کھڑے ہو اس بات کا فخریہ اظہار کیا کہ بنگلہ دیش کو پا کستان سے الگ کرنے کے لئے بھارت نے کردار ادا کیا۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد دہلی ، کشمیر اور اب حال ہی میں بہا ر کے ریا ستی انتخابا ت میں مودی اور بی جے پی کے اہم راہنما پاکستان مخالفت کو ابھار کر انتخابی کا میا بی کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔


بی جے پی کے صدر امت شاہ بہا ر کے انتخابی جلسوں میں اعلانیہ کہتے رہے : ’’ پا کستان کہتا ہے کشمیر کے بغیر پا کستان ادھورا ہے ہم پا کستان سے کہتے ہیں کہ پاکستان کے بغیر ہندو ستا ن ادھورا ہے‘‘’’ اگر بی جے پی بہار میں ہا ری تو تو پا کستان میں خوشی کے پٹا خے پھوڑے جائیں گے‘‘۔۔۔مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اعلانیہ پا کستان پر حملوں کے لئے طا لبان کی حمایت کا اعلان کرتے رہے اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبوں سے بھی آگا ہ کر تے رہے۔ مودی معمولی بہا نے تلاش کر کے پا کستان کے ساتھ با ر با ر مذاکرات کے عمل کو معطل کرتے رہے۔اس صورت حال میں ایسا کیا ہوا کہ اچا نک مودی ،پا کستان کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر مذاکرات کے لئے تیا ر ہو گئے؟ طالبان کے ذریعے پا کستان کو کمزور کرنے کی با ت کرنے والے اجیت دوول بنکا ک میں پا کستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے اور بھا رتی وزیر خاجہ سشما سوراج بھا رتی پا رلیمنٹ میں اپوزیشن اور بی جے پی کے کئی ارکا ن کی مخالفت کے با وجود پا کستان کے ساتھ مذاکرات اور امن کی ٖضرورت پر بھا شن دینا شروع ہو گئیں؟


اس بنیا دی سوال کے جواب کی تلاش میں اگر ہم پا کستانی میڈیا کے سا تھ ساتھ مغربی اور خود بھارتی میڈیا میں شائع ہو نے والی رپورٹوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ مو دی کو پا کستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کئی طرح کے اندرونی اور بیرو نی عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔جہاں تک اندرونی عوامل کا تعلق ہے تو مودی اور بی جے پی حکو مت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ریاستی انتخابات میں پاکستان مخالف رویہ اپنانے سے فا ئدے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوا۔اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق مودی سرکا ر بھارتی معیشت میں بہتری لا نے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ افراط زر اور روزمرہ کی اشیا ء انتہا ئی مہنگی ہو چکی ہیں۔ گو رننس کے معیا ر میں بھی کو ئی خاص سدھا ر نہیں آیا۔اپنی ان نا کامیوں پرپردہ ڈالنے کے لئے بی جے پی نے بھا رت میں پا کستان دشمنی، مسلم دشمنی، گا ئے کشی، مسلمانوں اور عیسا ئیوں کو ہندو بنانے،رام مندر’’ لو جہاد‘‘ جیسے لا یعنی ایشوز کو بلا واسطہ اوربالواسطہ طور پر ہوا دینا شروع کر دی۔ اس رویے پر بھا رتی سماج کے ترقی پسند طبقوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی احتجاج شروع ہوگیا۔ ریا ستی انتخابات خاص طور پر بہا رکے انتخابات میں بی جے پی کی عبرت نا ک شکست نے واضح کردیا کہ مودی کی تخریبی اور شدت پسندانہ پا لیسیاں فائدے کی بجا ئے بی جے پی کو سخت نقصان دے رہی ہیں۔


مغربی میڈیا کے مطابق پا کستان کے حوالے سے مودی کی شدت پسندی پر مبنی پا لیسی نے مغرب ، خاص طور پر امریکہ کو بھی مجبور کر دیا کہ مودی کو با ور کروایا جا ئے کہ ایک ایسے وقت میں جب پا کستان کی مسلح افواج پو ری یک جو ئی اور دلجمعی کے ساتھ مغربی سرحدوں پر شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے ایسے میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی امریکہ اور خود بھا رت کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔اگرچہ بارک اوباما کا فی عرصے سے مودی کو قائل کررہے تھے کہ پا کستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کیا جا ئے۔ جیسے اس سال جنوری میں دورۂ بھا رت کے دوران اور اس کے بعد فروری میں بھی امریکی اخبارات میں ایسی خبریں آئیں کہ اوباما نے بیک چینل کے ذریعے مو دی سے رابطہ کرکے انہیں با ور کر وایا کہ پا کستان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیا جا ئے۔ خود وزیر اعظم نواز شریف کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی بیان دیا تھا کہ امریکہ، بھا رت پر پا کستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے دبا و ڈال رہا ہے،تاہم یہاں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ پا کستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے امریکی دباؤ کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ امریکہ برصغیر میں امن قائم کرنے میں مخلص ہے اور امن کے اصول کے تحت ہی وہ بھا رت کو پا کستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے مجبور کر رہا ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دراصل سرد جنگ کے زمانے کی طرح ، 9/11کے بعد بھی امریکہ پا کستان کو افغان تنا ظر میں ہی دیکھ رہا ہے ۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ اگر پا کستان، طالبان کوشکست نہ دے سکا(خاکم بدہن)تو پھر اس کے اثرات سے افغانستان بھی محفوظ نہیں رہے گا اور عین ممکن ہے کہ 1996ء کی طرح طالبان پھر افغانستان میں بہت زیا دہ مضبوط ہو جا ئیں۔


جیسا کہ کالم کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ پا ک بھارت مذاکرات کی بحالی ایک انتہا ئی مثبت قدم ہے،تاہم اب ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ مذاکرات کا عمل کس حد تک با اثر ہو گا اور یہ عمل کس طرح ما ضی کے عمل سے مختلف ہو گا ،جبکہ ماضی میں بھی پا ک بھا رت مذاکرات بڑے جوش و خروش سے شروع ہو تے ،مگر بعد میں مختلف واقعات کے باعث مذاکراتی عمل نا کا م ہو جا تے۔دونوں ملکوں کی تا ریخ تو یہی بتا تی ہے کہ جب تک فریقین کے مابین ماضی کی تلخیوں کو بھول کر آگے بڑھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی، کاغذوں پر کئے جانے والے معاہدے نتائج دینے میں نا کام رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہو نے والے کئی معا ہد وں کے با وجود جموں وکشمیر،سیاچن، سر کریک،وولر بیراج،دہشت گردی، پا نی کا مسئلہ، آسان و یزوں کے حصول سمیت تما م ایشوز نہ صرف حل طلب ہیں، بلکہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے۔ان بنیا دی ایشوز کے حل نہ ہونے کے با عث سمجھوتا ایکسپریس اور بمبئی حملوں جیسے ضمنی ایشوز بھی حل نہیں ہو پا رہے۔خوش قسمتی سے آج پا کستان میں قومی دھا رے کے ساتھ جڑی ہو ئی ایک بھی بڑی سیاسی جما عت ایسی نہیں جوسیاست یا انتخابات میں کامیابی کے لئے بھا رت مخالف رویہ اپنا ئے۔تمام اہم سیا سی جما عتیں بھا رت کے ساتھ بہتر تعلقات کی با ت کرتی ہیں۔دوسری طرف مودی سرکار کو بھی اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے کہ اب بھا رت کا اکثریتی ووٹر بھی پا کستان مخالف رویے پر رام نہیں ہو سکتا۔نریندر مودی انتخابات سے پہلے کہاکرتے تھے کہ وہ بھارتی خارجہ پا لیسی کو عین انہی بنیا دوں اور اصولوں پر استوار کریں گے ،جن بنیا دوں پر اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دور میں استوار کیا تھا۔پا کستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنا نے کے لئے مودی کو آر ایس ایس سمیت سنگھ پریوار کی دیگر انتہاپسند تنظیموں کی مخالفت کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ مودی انتہا پسندوں کی مخالفت کی پروا نہ کر تے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے وہی پا لیسی اپنا ئیں جو اٹل بہا ری واجپا ئی جیسے مدبر سیاستدان نے اپنے دور میں اپنا ئی تھی۔

مزید :

کالم -