اسلام آباد کا ادبی و ثقافتی چہرہ
مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ہاں مَیں باغی ہوں‘‘ میں اسلام آباد کو پتھر کا شہر کہا تھا۔ ایک زمانے تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ اسلام آباد سنگ و خشت سے بنا شہر ہے،جس میں تہذیب و ثقافت اور ادب و فن کی رمق موجود نہیں۔ بیورو کریسی نے اسے صرف اقتدار کا مرکز بنانے پر توجہ دی، دوسرے شہروں سے منتخب ہونے والے ارکانِ اسمبلی اور حکمران بھی اس شہر کو صرف تختِ حکمرانی کی وجہ سے پہچانتے رہے۔ یہ توکل کی بات ہے کہ عید اور تہواروں پر جب اسلام آباد سے پردیسی اپنے شہروں کو لوٹ جاتے تو یہ شہر ویران ہو جایا کرتا تھا، جنہوں نے یہاں اچھے وقتوں میں پلاٹ لے کر گھر بنا لئے تھے، وہ اپنے گھر کرائے پر دے کر دیگر شہروں یا بیرون مُلک مقیم ہیں،اس لئے اس شہر کی اپنی آبادی بہت کم رہی، لیکن اب اس شہر کے اندر جان پڑ رہی ہے۔ اسلام آباد اب آباد ہو رہا ہے، یہاں کے مکین یہیں ر ہتے ہیں، اس کے درو دیوار سے اب صرف اقتدار کی خوں خواری ہی نہیں ٹپکتی، بلکہ ثقافتی و ادبی شعاعیں بھی نکلتی ہیں۔ یہ شہر اس حوالے سے بھی اپنی پہچان کرا رہا ہے اور یہاں اہلِ فن اور ادیبوں و شاعروں کی کاوشوں سے ادب کے اَن گنت رنگ نمایاں ہو رہے ہیں۔
اس بار اسلام آباد جانا ہوا تو اس حوالے سے اسلام آباد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی دعوت تو برطانیہ سے آئی ہوئی شاعرہ و نثر نگار شہناز بانو کی دو کتابوں ’’اندازِ بیاں‘‘ اور’’ چین اَبیئر‘‘ کی تقریب رونمائی تھی،جو اسلام آباد کلب میں منعقد ہوئی۔اس کی صدارت ڈاکٹر غضنفر مہدی نے کی۔ ڈاکٹر غضنفر مہدی کی کاوشیں بھی اسلام آباد کے ادبی چہرے کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ جاری رہی ہیں۔انہوں نے برسوں پہلے ’’دائرہ‘‘ تنظیم کی بنیاد رکھ کر اس شہر میں ادب و فن کی محفلوں کا آغاز کیا تھا۔ وہ ملتان سے تعلق رکھتے ہیں اور مخدوم سجاد حسین قریشی سابق گورنر کی آشیر باد سے انہوں نے شہرِ اقتدار میں قدم جمائے تو پھر اُن کے قد جمتے ہی چلے گئے۔ ہر دور کے حکمرانوں کو اپنے شیشے میں اُتار لینا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس تقریب میں وہ صدارت کر رہے تھے اور اُن کے بھانجے سبطین رضا لودھی میزبان تھے۔
سبطین رضا لودھی ملتان کے ایک متحرک نوجوان ہیں، جنہوں نے اسلام آباد میں رہ کر اپنی شناخت بنائی ہے۔ اُن کی اصل طاقت بھی ڈاکٹر غضنفر مہدی کی طرح ملتان کا قریشی خاندان ہے، وہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ہمسائے ہیں اور اس برکت سے انہیں آگے بڑھنے کے مواقع ملے،جنہیں انہوں نے ضائع نہیں کیا۔اس تقریب میں جب مَیں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات کا ذکر کیا کہ ملتان اسلام آبا کے ادبی افق پر بھی چھایا ہوا ہے، اس لئے یہ کہنا مناسب نہیں کہ ملتان نے یہاں حکمران ہی بھیجے ہیں، یہاں دانشور اور ادیب و شاعر بھی آ کر اپنے جھنڈے گاڑتے رہے ہیں، تو بہت تالیاں بجیں۔ شہناز بانو کی کتابوں پر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر فرحت عباس، سرفراز شاہد، منظر نقوی، نورین طلعت عروبہ اور دیگر مقررین شامل تھے۔ شہناز بانو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیارِ غیر میں مقیم ہیں تاہم اُن کا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے انہوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم شادی کے بعد انہیں برطانیہ جانا پڑا۔ وہاں رہ کر بھی وہ اپنے ادب، کلچر اور سماج سے دور نہ ہوئیں۔اُن کی تحریریں ایک سح ہے، جسے وہ خلوصِ دل سے سامنے لائی ہیں،ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے فنی پہلوؤں کی بجائے اس خلوص کو پیش نظر رکھا جائے۔ یہ بات شاید انہوں نے اس لئے کہی کہ اکثر مقررین نے اُن کی شاعری میں فنی پہلوؤں کو ناقص قرار دیا تھا۔ اُن کے اس استدلال کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا شاعری کو فنی اوصاف کے بغیر اس میں موجود اعلیٰ خیالات کی وجہ سے قبول کیا جا سکتا ہے؟
اگلے روز ڈاکٹر فرحت عباس نے اپنی تنظیم بزم اہلِ قلم پاکستان کے زیر انتظام رائٹرز ہاؤس اکادمی ادبیات میں میرے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو نے اکادمی کے ایک حصے کو رائٹرز ہاؤس کا نام دے کر اُسے ادیبوں اور شاعروں کے لئے وقف کر رکھا ہے، جہاں کوئی بھی ادبی تقریب منعقد کر سکتا ہے اور وہ خود بھی اکثر تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔انہوں نے میری تقریب کی بھی صدارت کی، حالانکہ وہ اس دن اقبالؒ کانفرنس کے سلسلے میں بہت مصروف تھے۔اکادمی ادبیات میں ہر روز ایک تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بہت کامیابی سے جاری ہے،جس کے باعث اسلام آباد کی ادبی فضا میں ایک واضح تحرک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی کا پلیٹ فارم ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں کے لئے موجود ہے۔ وہ ملک کے کسی بھی حصے سے آ کر یہاں تقریب کر سکتے ہیں۔ اہلِ قلم سے ملاقاتوں اور ایک دوسرے کے نظریات سے آگہی کے لئے بھی یہ پلیٹ فارم حاضرہے۔ انہوں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بزمِ اہل ِ قلم پاکستان کے پلیٹ فارم سے آج جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے ایک شاعر کے ساتھ شام منائی جا رہی ہے، اس سلسلے کو جاری رہنا چاہئے۔ ڈاکٹر فرحت عباس جو اس قریب کے میزبان تھے، بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں وہ پیشے کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں،بے نظیر شہید ہسپتال راولپنڈی میں ڈپٹی ایم ایس تعینات ہیں خود بہت اچھے شاعر ہیں اور ملتان میں ہوتے تھے تو محفلیں سجاتے تھے، اب انہوں نے اسلام آباد میں رنگ جمایا ہوا ہے۔
انہوں نے ملتان کے بارے میں اپنی یادوں کی پٹاری سے بہت کچھ نکالا اور بہت سی ایسی یادیں بھی نکالیں، جن کا تعلق بہاولپور کی ادبی تاریخ سے تھا۔ ظا ہر ہے ایسا کرتے ہوئے نوشی گیلانی اور منور جمیل قریشی کا ذکر تو ضرور آتا ہے، تقریب سے رخسانہ سحر، سبطین رضا لودھی، راؤ فرزند علی عادل اور سینئر شاعر نسیم سحر نے بھی خطاب کیا۔ نسیم سحر جو ایک عرصے تک جدہ میں مقیم رہے، نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ نسیم شاہد اور مجھے ایک عرصے تک اخبارات و جرائد کے مدیر نام کی مناسبت سے لڑکی سمجھتے ہوئے فراخ دلی سے چھاپتے رہے۔ مجھے جب اظہارِ خیال کے لئے کہا گیا تو مَیں نے بڑی فراخ دلی سے نسیم سحر کی اس بات کو قبول کیا اور بتایا کہ مرحوم اظہر جاویدنے جو لاہور سے ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ نکالتے تھے اور امروز کا ادبی صفحہ شائع کرتے تھے، ملتان میں میری کتاب کی رونمائی کے موقع پر خود اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ مَیں نے اسلام آباد کے ادیبوں شاعروں کو مبارکباد دی کہ وہ اپنی کوششوں سے اسلام آباد کے تن مردہ میں جان ڈال کر اُسے ادبی لحاظ سے بڑے شہروں کی صف میں لے آئے ہیں۔
اس کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا اور مجھے پہلی بار اسلام آباد کے شاعروں کو سننے کا موقع ملا، بہت خوبصورت اور تازگی سے مزین شاعری سُن کر بہت لطف آیا۔ علی یاسر، ضیاء الرحمن نعیم، نسیم سحر، رخسانہ سحر، فرح دیبا، وحیدہ رفعت جیسی شاعرات و شاعروں نے اپنے نئے طرزِ احساس سے بہت متاثر کیا۔ قائداعظم یونیورسٹی کی پروفیسر اور معروف شاعرہ راشدہ ماہین ملک کو پہلی بار سننے کا موقع ملا۔انہوں نے جب ترنم کے ساتھ غزل پیش کی تو اُن کی خوبصورت شاعری کا مزہ دوبالا ہو گیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ جب بھارت گئیں تو ترنم کے ساتھ غزل پڑھنے کی وجہ سے انہیں بہت دیر تک سُنا گیا۔ راشدہ ماہین ملک کا حال ہی میں نیا شعری مجموعہ’’باغ‘‘ کے نام سے سامنے آیا ہے،جسے ادبی حلقوں سے پذیرائی مل رہی ہے۔راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں کلیم احسان بٹ بھی بہت متحرک ہیں اور حسن عباس رضا کا بھی طوطی بولتا ہے، لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی اور فون پر ہی راز و نیاز ہوا۔اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے، اس لئے اس کا ادبی و ثقافتی چہرہ بہت روشن ہونا چاہئے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں اہل قلم کانفرنسیں ہوتی تھیں،اب یہ سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے۔ ڈاکٹر قاسم بھگیو ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں،انہیں وزیر اعظم نواز شریف کو ایک کل پاکستان کانفرنس کی تجویز پیش کرنی چاہئے تاکہ ملک بھر کے ادیب و شاعر بدلے ہوئے اسلام آباد کی ادبی فضا کو مزید متحرک اور روشن کر سکیں۔