تجھ کو پرائی کیا پڑی
رینجرز کے اختیارات محدود کئے جانے سے متعلق قرارداد کے خلاف درجنوں افراد کی ’’عظیم الشان‘‘ ریلیاں نکال کر آخر کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاثر تو یہی ہے کہ یہ پاکستان میں کئی برسوں سے جاری سول ملٹری کشمکش کا ہی ایک اور شاخسانہ ہے۔ وفاقی حکومت اس تمام صورتحال پر بظاہر جارحانہ، لیکن محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ سندھ حکومت سے کہا جارہا ہے کہ رینجرز کو ایک بار پھر سے مکمل بااختیار بنانے کے لئے بعض دیگر آپشن بھی موجود ہیں، یہ بھی درست ہے ،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وفاقی حکومت نے جب کبھی بھی اپنے آئینی اختیارات کے تحت ہی سہی صوبائی حکومتوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج سے خود کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکی۔ سندھ حکومت اور رینجرز والا معاملہ بالآخر ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بناء پر ہی حل کرنا ہو گا۔
اس سارے منظر نامے میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ پاکستان اس وقت کسی بھی قسم کے اندرونی خلفشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں اداروں کو متنازعہ بنانے سے ہر صورت باز رہنا چاہیے، تالی لیکن دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اداروں کا وقار برقرار رکھنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈروں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ سب کی بھلائی اسی میں ہے کہ سول ملٹری کشمکش کا تاثر دور کیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دھرنوں نے پاکستان کے معاشرتی، سیاسی اور جمہوری ڈھانچے پر بے انتہا منفی نقوش چھوڑے تھے۔ ایک موقع پر تو واضح نظر آنے لگا کہ دھرنا دلوانے والی فورسز سول حکومت کو لپیٹ کر ہی چھوڑیں گی۔ وہ تو پارلیمنٹ تھی جو ایک ہو گئی۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی آئین کی بالادستی کا علم بلندکئے رکھا، جس کے نتیجے میں حکومت تو بچ گئی، لیکن اس کی رٹ کو شدید نقصان پہنچا۔کئی معاملات براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں چلے گئے۔اپیکس کمیٹیاں قائم ہوئیں تو یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا کہ ’’نرم انقلاب‘‘ آچکا ہے۔ ماننا ہو گا کہ دباؤ کے اس ماحول میں بھی سیاسی جماعتیں دانائی کا مظاہرہ کرتی رہیں اور ایسا نظرآرہا تھا کہ سول ملٹری تعلقات میں توازن تو پیدا ہو سکتا ہے ،لیکن سیاسی حکومتوں کو زیادہ دیر تک نیچے لگائے جانے کا عمل شاید اب ممکن نہ رہے۔
کراچی میں رینجرز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کیخلاف عملی اور ٹھوس کارروائیاں کی گئیں۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو شاید حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے جاتے، لیکن پھر یوں محسوس ہونے لگا کہ آپریشن کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والے صولت مرزا کا ٹی وی پر بیان ایم کیو ایم کے لئے الٹا پلس پوائنٹ بن گیا۔ این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ایم کیو ایم کی خیرہ کن کامیابی اور
اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تحریک انصاف کی عبرتناک شکست سے سبق سیکھا جانا چاہیے تھا۔ افسوس ایسا نہیں ہوا اور اب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کی لینڈ سلائیڈنگ وکٹری نے منظر بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ رینجرز حکام اس آپریشن کے دوران سندھ حکومت کے بعض وزراء اور اعلیٰ افسران کو بھی گھیرنے پر لگ گئے، ایسا نہیں کہ ایم کیو ایم کوئی پاکباز جماعت یا پھر پیپلز پارٹی میں تمام فرشتے بیٹھے ہیں، لیکن آپریشن بہرحال کسی مینڈیٹ کے تحت ہی ہونا تھا۔ کارروائیاں ایک خاص حد سے آگے بڑھیں تو سندھ حکومت چلا اٹھی’’منے کی جان لو گے کیا‘‘ پھر یہی لمحہ تھا کہ سیاسی حکومت نے بیک فٹ چھوڑ کر آگے کھل کر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ صوبائی حکومت کے ذمہ داران اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسمبلی نے اپنے آئینی اختیارات استعمال نہ کئے تو سندھ حکومت کا ازخود خاتمہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ پھر اسٹیبلشمنٹ بھی کہہ سکتی تھی کہ ہم نے تو کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔ ساری حکومت ہی چور تھی اس لئے دھر لیا گیا۔
ہر طرح کے مکمل اختیارات رکھنے والی رینجرز کو اب بتا دیا گیا ہے کہ اسے آئندہ کیا کرنا ہو گا۔ شک کی بنیاد پر گرفتاری، سرکاری اداروں پر چھاپوں سے پہلے سندھ حکومت سے پوچھنا ہو گا۔ رینجرز کو صرف ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان سے متعلق اختیارات حاصل ہونگے۔ رینجرز کارروائیاں کرتے وقت پولیس کے سوا کسی دوسرے ادارے کی معاونت نہیں کرے گی۔ سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی اس قرارداد کے مذکورہ نکات اتنے برے بھی نہیں کہ شوروغوغا برپا کر دیا جائے۔ اسمبلی نے اپنے آئینی اختیارات کا ہی استعمال کیا ہے۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی گروہ اس صورتحال پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس امر کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ جو سیاسی جماعتیں د ھرنوں کے دوران پارلیمنٹ میں یک زبان ہو گئی تھیں وہ آج بھی اس نوع کے کسی اقدام کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گی۔ میڈیا کے ذریعے سیاسی شخصیات کی کردار کشی زیادہ سود مند نہیں رہی۔اب تو عام آدمی بھی جاننے لگ گیا ہے کہ کسی چینل پر بیٹھا کونسا ’’نابغہ روزگار‘‘ اینکر کس کی زبان بول رہا ہے۔ اگرچہ اعتراف نہیں کیا جاتا ،لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں زبان یا قلم پھسل ہی جاتا ہے۔ پچھلے دنوں رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسا ہی کام کر کے سیاسی حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی معلومات میں بھی اضافہ کر دیا کہ معلومات کون فراہم کررہا ہے۔ رؤف کلاسرا نے لکھا ہے کہ پچھلے ہفتے دوستوں کے ساتھ کراچی میں تھا، عامر متین، کاشف عباسی، ارشد شریف، عماد یوسف، سمیع ابراہیم، سب سلمان اقبال صاحب کے گھر ڈنر پر مدعو تھے۔ وہیں اتفافاً ایک بڑے آدمی سے ملاقات ہو گئی، جو کراچی کے معاملات دیکھتے ہیں۔میں ڈاکٹر عاصم حسین کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ صاحب بولے:’’ پہلے پانچ دن تو ڈاکٹر عاصم نے ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دی، کسی کو قریب نہیں آنے دیا، رینجرز پر رعب ڈالنے کے لئے مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتے رہے، جب انہیں یقین ہو گیا اب دال نہیں گلے گی تو سب کچھ اگل دیا، ایسا اگلا کہ سن کر گھن آرہی تھی، کون سی بربادی کی کہانی ڈاکٹر عاصم نے نہیں لکھی‘‘۔ میں نے کہا: ’’ ہم سنتے رہتے ہیں، کراچی کے پیپلز پارٹی کے ایک صوبائی وزیر کے گھر کی بیسمنٹ سے ایک ارب روپے کیش ملا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟ ایک لانچ بھی پکڑی گئی تھی جس میں اربوں روپے دبئی بھیجے جارہے تھے؟‘‘ وہ صاحب بولے :’’بالکل یہ بات درست ہے، اس کی بیسمنٹ سے ایک ارب روپے کا کیش بھی ملا تھا‘‘۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میڈیا کو اس طرح سے استعمال کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کرلے گا تو شاید اب آسانی سے ایسا ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو خود سوچنا ہو گا کہ اس کی آشیر باد کا تاثر رکھنے والے ’’صحافتی لاؤڈ سپیکر ‘‘ اب زیادہ کام کے نہیں رہے، الٹا اسٹیبلشمنٹ کی سبکی کا سبب بن سکتے ہیں ،کیونکہ ان کے ارشادات سن کر مخالفین بھی براہ راست جوابات دینے پر اترآئے ہیں۔ ان حالات میں تنقید کا نشانہ کون بن رہا ہے۔ صرف مخصوص اینکروں اور کالم نگاروں کو ہی نہیں، بلکہ بعض ریٹائرڈ افسران کو بھی ’’صراط مستقیم‘‘ پر چلانے کی ضرورت ہے، ورنہ ان کے بھٹکے ہوئے بیانات جو ان کی ادھوری خواہشات کی صورت میں زبان پر آئے ہیں اداروں کی تضحیک کا باعث بن سکتے ہیں۔موجودہ صورتحال میں فوج کیا سوچ رہی ہے کے موضوع پر ایسا ہی ایک بیان سوات آپریشن کے کمانڈر، سابق سفیر اور دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل(ر) اعجاز اعوان نے داغا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت آرمی چیف کے پاس چار رول ماڈل ہیں ایک راستہ اور بھی ہے، ایک جنرل کیانی آپشن ہے کہ چپ کر کے بیٹھ جائیں، ملک کیساتھ سیاستدان جو بھی کرتے ہیں ہونے دیں۔ دوسرا جنرل جہانگیر کرامت آپشن ہے کہ استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں۔ ایک جنرل کاکڑ آپشن ہے کہ ٹیک اوور بھی نہ کریں اور ان کو چلتا کریں اور ایک جنرل مشرف آپشن ہے کہ ٹیک اوور کر لیں ۔
انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک اور آپشن بھی ہے وہ یہ کہ انگلی ٹیڑھی کریں گے تو گھی نکلے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وزیراعظم کو ایک سال کی چھٹی پر بھیج دیں، جمہوریت چلتی رہے، اسمبلیاں اپنی جگہ برقرار رہیں، وزیراعظم کسی بھی وجہ سے یا علاج کی غرض سے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ ان کی جگہ ایک سال کے لئے کوئی اچھا آدمی آسکتا ہے اور قوم کو اس دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھٹی سے واپس آنا بھی ضروری نہیں۔ میجر جنرل(ر) اعجاز اعوان نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا کہ یہ آئینی فارمولا ہے ۔ایسے ریٹائرڈ افسروں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘۔