تذکرہ ایک محفلِ میلاد کا
حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے حینِ حیات ہی میلاد النبیؐ کی محفلیں منعقد ہونے لگی تھیں۔ کچھ دینی حلقوں نے اسے ’بدعت‘ کا نام دیا لیکن علامہ اقبالؒ کی رائے یہ تھی۔ ’’چند سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ مولود شریف کے ذریعے سے اس امت کو متحد کرے گا۔ مجھے ایک عرصے تک حیرت رہی کہ یہ واقعہ کس طرح رُونما ہوگا اب تحریک یوم النبیؐ نے اس خواب کی تعبیر کو حقیقی طور پر نمایاں کر دیا۔‘‘ مجھے کئی سال سے ایسی محافل میں شرکت کا موقع مل رہاہے۔ ان میں تلاوت قرآن پاک ہوتی ہے۔ نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور پروگرام کے آخر میں امام اہلسنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ کا لکھا ہوا’سلام‘ پڑھا جاتا ہے، جو عام طور پر حاضرین کھڑے ہو کر بڑے ادب و احترام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ پڑھنے والے کا لحن اگر بہتر ہوتو سچی بات ہے شرکاء کے دل روحانی کیف میں ڈوب جاتے ہیں۔ان محفلوں میں علمائے کرام کی تقریریں بھی ہوتی ہیں، جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابر کات کے ساتھ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور سیرت پاک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ خاص طور سے حضورؐ کے حسن و جمال اور معجزات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس بار مجھے ایک محفل میں دو خطیبوں کی دھواں دھار تقریریں سننے کا موقع ملا ، دونوں کا تعلق تدریس کے پیشے سے ہے۔ ایک پروفیسر اسلامیات ہیں اور کسی مسجد میں باقاعدگی کے ساتھ خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں۔ دوسرے صاحب کسی بڑے دینی مدرسے سے بطور مدرس وابستہ ہیں۔ مذکورہ ہر دواصحاب علم و فضل نے نوربشر، علمِ غیب، حاضر ناظر، میلاد النبیؐ ایسے مسائل پر خطابت کے دریا بہا دیے۔ساتھ ساتھ دیوبندی اور اہل حدیث حلقوں پر بھی خوب گرج برس کی۔ پروفیسر صاحب نے جماعت اسلامی کے بانی حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ پراس حوالے سے تنقید کی کہ انہوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار نبی علیہ السلام، لکھا ہے، آپؐ کا کوئی اور نام نہیں لیا۔ راقم الحروف نے گھر آکر تفہیم القرآن کی ورق گردانی کی تو معلوم ہوا کہ صاحب تفسیر نے ’نبی علیہ السلام‘ نہیں ’بنی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کے الفاظ برتے ہیں، اس کے علاوہ کہیں ’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ‘کہیں ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اور کہیں ’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم‘ کے بھی الفاظ استعمال کیے ہیں البتہ کسی جگہ بھی آپ ؐ کا اسم گرامی درود پاک’صلی اللہ علیہ وسلم‘ کے بغیر رقم نہیں کیا۔ تعجب ہوا کہ پروفیسر صاحب نے مولانا مودودیؒ کوبھی معاف نہیں کیا، حالانکہ مولانا نے ساری زندگی فرقہ واریت سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ایک بار کسی صاحب نے اہل تشیع کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟ مولانا نے ان صاحب سے پوچھا، پہلے یہ بتائیے کہ آپ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں؟ان صاحب نے جواب دیا ، جی ہاں مسلمان تو سمجھتے ہی ہیں۔ اس کے بعد مولانا نے کہا، تو پھر آپ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں! سوال یہ ہے کہ آج جب ہم فرقہ واریت کے فتنے کو خوب بھگت چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو کیا اب اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں مزید انتشار پیدا کرنے سے رُک نہیں سکتے؟آخر یہ اسلام کی کونسی خدمت ہے کہ اس بات پر ہزاروں صفحے سیاہ کر دیں یا خطابت کے دریا بہادیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا یا نہیں یا آپ علم غیب رکھتے تھے تو کتنا رکھتے تھے؟
اختلافی مسائل چھیڑنے سے کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل و انصاف، فراخدلی، عفوو درگزر، صداقت شعاری، جرأت و بہادری، سیر چشمی، رحم و ہمدردی اور ایفائے عہد کے واقعات سُنا کر عشقِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ بیدار کیا جائے۔ ہمارے علمائے کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ وقت کے اصل تقاضے کیا ہیں؟ غیر مسلم طاقتوں نے ہمارے سامنے عراق، لیبیا اور افغانستان کو روند ڈالا ہے۔اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمیں ایک دہشت گرد قوم ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔ کیا ہمارے علماء اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ جب تاتاریوں کی فوجیں ہلا کو خان کی سرکردگی میں بغداد پر حملہ آور ہوئیں تو اس وقت وہاں مالکی، شافعی، حنفی اور شیعہ سنی تضادات عروج پر تھے۔ ہر فرقہ دوسروں پر کفر کے فتوے لگا رہا تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب ترکوں نے مشرقی یورپ کے دارالسلطنت قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو وہاں پادریوں نے اس موضوع پر بحث کا بازار گرم کر رکھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھ کر آخری کھانا تناول فرمایا تھا تو جو روٹی کھائی تھی وہ خمیری تھی یا غیر خمیری تھی!
جس محفلِ میلاد میں شرکت کا میں ذکر کررہا ہوں، وہ سرشام شروع ہو کر رات ساڑھے دس بجے تک جاری رہی لیکن اس دوران میں عشاء کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ نزدیک کی مسجد سے اذان ہوئی تو نہ کوئی شریک محفل وہاں پہنچا اور نہ منتظمین نے خود نمازِ یا جماعت کا اہتمام کیا۔ البتہ کھانے میں سب لوگ خشوع و خضوع کے ساتھ شریک تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج کل ہمارے ہاں کھانا شادیوں کا ہو یامحافلِ میلاد کا ، اس سے عام طور پر کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں نہ کوئی دنیاوی طور طریقہ یاد ہوتا ہے نہ سنت رسولؐ کی فکر! انا للہ و انا اِلَیہ راجعون۔