تمغوں کے حق دار

تمغوں کے حق دار
 تمغوں کے حق دار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم نے سنا تو ہونقوں کی طرح جلیل حسن اختر راجہ کی طرف دیکھا جو بے بسی کی تصویر بنے نیم دلی سے مسکرادیئے، خبر یہ تھی کہ حکومت نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے حق داروں کا اعلان کردیا ہے اور ماشاء اللہ صحافیوں میں سے چند خوش نصیبوں کو چن لیا ہے۔ ہم جملہ متاثرین جلیل حسن اختر راجہ کا قوی یقین تھا کہ اس بار راجہ صاحب کو ضرور حکومت ان خوش بختوں میں شامل کرے گی ....دیکھئے ہم بھی کتنے احمق ہیں کہ راجہ صاحب کو متعارف کروائے بغیر ان کی دعویداری ثابت کرنے لگے ہیں!


راجہ جلیل حسن اختر لاہور شہر میں انگریزی صحافت اور ٹریڈ یونین سیاست میں ایک نمایاں مقام اور حیثیت رکھتے ہیں، آپ مرحوم جہانگیر بدر کے کلاس فیلو اور ان جیسے ہی ایک اور بڑے سیاست دان جاوید ہاشمی کے زمانہ طالب علمی کے ہم عصروں میں سے ہیں، ایک اور تعارف یہ ہے کہ راجہ صاحب اور پاکستان ٹوڈے کے ایڈیٹر عارف نظامی کا بچپن اکٹھے گزرا ہے اور دونوں مل کر کرائے کی ایک ہی سائیکل چلاتے رہے ہیں۔ ان کے والد راجہ حسن اختر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ساتھیوں میں سے تھے اور مسلم لیگ کے پودے کو توانا کرنے والوں کی اولین صفوں میں کھڑے ہوتے تھے، ان کی والدہ ڈاکٹر مسز نیاز حسن اختر خان کنگ ایڈورڈ کالج میں پہلے مسلمان لڑکیوں کے بیج کا حصہ تھیں جنھوں نے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے بڑے بھائی مسعود اختر کیانی پاک فوج میں بھرتی ہوئے اور1965میں سیالکوٹ کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا!


خود راجہ صاحب پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر، جنرل سیکرٹری اور سینئیر نائب صدر جیسے عہدوں پر متمکن رہے، آپ کی خدمات کے عوض آپ کو نثار عثمانی ایوارڈ اور منہاج برنا ایوارڈ جیسے اعزازات سے بھی نوازا گیا، پرانے راوین اور بعد میں پنجاب لاء کالج کے رسالے المیزان کی ایڈیٹنگ کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ راجہ صاحب نے ساری عمر قلم مزدوروں کے حقوق کی آواز بلند کی اور ہر نرم گرم طبیعت کے حکمران کے سامنے صحافیوں کے مسائل کا رونا رویا ، آپ کا شمار ان چند صحافیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پنجاب میں صحافیوں کے لئے جرنلسٹ کالونیوں کی منظوری کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ راجہ صاحب نے کنٹریکٹ پر کام کرنے والے صحافیوں کو ویج بورڈ میں شامل کرنے کی جنگ تسلسل کے ساتھ لڑی اور ان آوازوں میں ان کی آواز نمایاں حیثیت رکھتی ہے جو تب تک بلند ہوتی رہیں جب تک ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے صحافیوں کو بھی ویج بورڈ کا حقدار تسلیم نہیں کرلیا گیا۔راجہ صاحب کا شمار ان بانیوں میں بھی ہوتا ہے جنھوں نے صحافیوں کی انشورنس سکیم کے لئے علم بلند کیا اور بالآخر آج ہر فوت ہو جانے والے صحافی کی فیملی کو اس سکیم کا بینیفشری تسلیم کروالیا، اس کے ساتھ ساتھ راجہ صاحب صحافی برادری کے خاندانوں کے لئے صحت اور تعلیم جیسی سہولتوں کے لئے چلائی جانے والی مہمات کا بھی حصہ رہے ہیں ، صحافی برادری ہر سال پریس کلب کے انتخابات منعقد کروانے کے لئے جن سنیئر صحافیوں کی خدمات کی خواستگار ہوتی ہے ، راجہ جلیل کا نام ان میں ضرور شامل ہوتا ہے ، انہوں نے ساری عمر میدان صحافت میں تازہ واردان بساط ہوائے دل کی حوصلہ افزائی کی ہے اور دامے، درمے ، سخنے ان کی سپورٹ کی ہے ۔ دور کیا جانا ، ہم بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کو راجہ صاحب کی شفقت نے انگریزی زبان کا صحافی بنادیا ، بلکہ یوں کہئے کہ نہ صرف انگریزی زبان بلکہ کامرس رپورٹنگ کے قابل بھی بنایا ، آج بھی راجہ صاحب کا دل ان کے دسترخوان کی طرح کشادہ ہے اور کئی نوجوان ان کے خوشہ چیں ہیں۔


یہ تو راجہ صاحب کا تعارف جنھوں نے ساری عمر جمہوراور مزدور کے لئے کام کیا، پریس کلب ان کا دوسرا گھر ہے اور اس گھر کے مکین انہیں اپنا بڑا مانتے ہوئے ان کا پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ راجہ صاحب چاہتے تو وکالت کے شعبے سے منسلک رہتے لیکن قلم دوستی اور قلم مزدور سے محبت انہیں صحافت کے میدان خارزار میں کھینچ لائی جہاں انہوں نے زندگی دودھ کے پیالے میں پڑے پھول کی طرح گزاری ، ان کی موجودگی کسی کو ناگوار گزری نہ ان کا ہونا نہ ہونے کے برابر رہا، انہوں نے ہمیشہ آگے بڑھ کر صحافی برادری کے مفادات کا تحفظ کیا ، تبھی تو وہ لاہور کے صحافیوں کے راجہ صاحب ہیں!


تاہم افسوس یہ ہے کہ حکومت ان کی شبانہ روز محنت کی قائل نہیں ہے ، وہ ان تمغوں کے حق دار نہیں ہیں جن کو پانے والے سینے پر سجانے کے بجائے صندوقوں میں چھپاتے پھرتے ہیں کہ کہیں لوگ پوچھ نہ لیں کہ جناب کو کس کارکردگی کے عوض یہ تمغہ ملا!....وزیر اعظم نواز شریف سے گلہ اس لئے ہے کہ وہ تو راجہ صاحب کے نام اور کام سے خوب واقف ہیں، ان کا بچپن تو لاہور شہر کے گلی کوچوں میں گزرا ہے ،و ہ تو اسی گورنمنٹ کالج میں پڑھے ہیں جہاں راجہ صاحب کا طوطی بولتا تھا ، وہ تو یہ بھی جانتے ہیں کہ راجہ صاحب نے پاک چین تعلقات پر 1980کے اوائل میں کتاب لکھی تھی اور انہیں چو این لائی سے ہاتھ ملانے کا اعزاز بھی حاصل ہے ، میاں صاحب کے علم میں تو ہے کہ راجہ صاحب نے علامہ اقبال کے فن و فکر کو پھیلانے کے لئے کتنی محنت کی ہے لیکن میاں صاحب کی بے اعتنائی دیکھ کر تو بے اختیار یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے!


وقت بے لگام گھوڑا ہے ، اس کی پشت پر سوار ہی اس کا حقدار مانا جاتا ہے ، فی زمانہ وقت نے چال بدل لی ہے اور کئی ایسے بالشتیے بھی اس کی پشت پر سوار ہیں جنھیں کبھی گھوڑوں کا خر خرہ کرنے کے اہل بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، کمرشل ازم نے ہر شے کو بکاؤ مال بنادیا ہے ، یہاں ان کا کام بکتا ہے جو ایک ہاتھ سے کام اور دوسرے ہاتھ سے ڈھول بجاتے ہیں اور جب لوگ نہیں سنتے تو کام چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے ڈھول بجانے لگتے ہیں، یہ مارکیٹنگ کا دور ہے ، سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو ، اپنے کام کو جب تک ٹانگا نہ جائے کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے ، اب ہر کامیاب آدمی رات کو ان لوگوں کی فہرست بنا کر سوتا ہے جن کو ایک ایک کرکے اگلے روز فون کرکے سلام کرنا ہوتا ہے اور صبح اٹھ کر جن کو ایس ایم ایس کے ذریعے کوئی لطیفہ ، کوئی قول زریں ضرور بھیجنا ہوتا ہے تاکہ آپ جناب کو یاد رہے او ر بوقت ضرورت کام آوے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے آزمانے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ، ان کی کوئی توقیر نہ ہوتی تھی ، مگر آج اس قبیل کے لوگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اہل سمجھے جاتے ہیں ، راجہ صاحب ایسے تمغوں کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں جس کے لئے زمین پر گھٹنوں کے بل چل کر صاحب سلام کرنا پڑے، کسی کی خدمت میں گھنٹوں پیش رہنا پڑے اور اس میں ناموجود خوبیوں کی موجودگی کی تلاش میں دن رات ایک کرنا پڑیں!


میاں نواز شریف کو تو ایک طرف چھوڑیئے ، میاں شہباز شریف نے بھی کبھی بھولے سے راجہ جلیل ایسے ہیروں کی قدر کرنے کا تردد نہیں کیا، ان کو بھی وہی بھاتا ہے جو آگے بڑھ کر ان کو اپنا چمتکار دکھادیتا ہے ، وہ بھی اس جادو کو مانتے ہیں جو ان کے سر چڑھ کر بولتا ہے ، وہ بھی حسن کارکردگی کے تمغے انہی میں تقسیم کرواتے ہیں جو وفاداری کا پیکر بن کر ان کے حضور سر تسلیم خم کئے ہوں، یہی ان کا میرٹ ہے کہ یا تو کوئی اپنا آپ منوالے یا پھر انہیں مان لے، تیسرا کوئی آدمی ان کی نظر انتخاب میں نہیں آسکتا۔ راجہ جلیل ایسی ہستیاں معاشرے کا معیار ہیں اور صحافت جیسے مقدس پیشے کا اعتبار ہیں ، ان کی قدر اس پیشے سے وابستہ افراد نے بہت کی ہے اور اب تک کر رہے ہیں لیکن بھلے وقتوں کی ان نشانیوں کی حکومتی سطح پر پذیرائی بھی بے حد ضروری ہے ، یہ سطور قرض ہیں جو ہم ادا کررہے ہیں ، یہ کسی پر احسان ہے نہ کسی پرتبرا، یہ دل کی آواز ہے جسے کوئی دل والا ہی سنے گا!*

مزید :

کالم -