خیبرپختونخوا پولیس کو عوام دوست بنانے کے دعوے کھوکھلے نکلے
پشاور(عمران رشید) ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑاپنوں میں‘‘ کے مصداق خیبر پختونخوا پولیس میں تبدیلی بھی صرف پیٹی بندوں کو فائدے پہنچانے تک محدود ہو کر رہ گئی، پولیس نے تو تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات حاصل کر لیں لیکن عوام، مظلوم، فریادی اور سادہ لوح لوگوں سے پولیس کا روئیہ نہ بدل سکا جبکہ جرائم پیشہ عناصر خصوصاً منشیات فروشوں سے پولیس اہلکاروں کا گٹھ جوڑ بھی قائم ہے، اس پر مذید یہ کہ شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے، جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے، بغیر کسی جرم شہریوں کو کئی کئی دن تک حبس بے جا میں رکھنے، بھتہ وصولی کیلئے حراست میں لینے جبکہمختلف حربوں سے شریف اور جرائم پیشہ دونوں طرح کے افراد سے تحائف اور دیگر فوائد حاصل کرنے جیسے ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، یہ صورتحال صوبائی دارالحکومت پشاور کے شہری علاقوں کی ہے جبکہ نواحی علاقوں، دیگر اضلاع اور شہروں کی صورتحال بھی کوئی مختلف نہیں، دوسری طرف پولیس میں شکایات سیل بھی برائے نام ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کے خلاف آئی جی کو ایس ایم ایس پر شکایت پر ہونے والی تحقیقات میں بھی پیٹی بندوں کو بچا کر بے قصور لوگوں کو ملوث کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اس کے علاوہ بااثر پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات شروع ہونے پر شہریوں پر فریاد واپس لینے اور راضی نامے کیلئے بدباؤ ڈالنے سمیت دیگر مکروہ ہتھکنڈے بھی اختیار کئے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے والے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے دو ہفتے کے دوران خود نوشہرہ اور پشاور کے تھانوں میں غیر قانونی طور پر اور بلاجواز حبس بے جا میں رکھے گئے افراد کو رہا کروایا جو پولیس میں تبدیلی اور پولیس کو جواب دہ بنانے پر سوالیہ نشان ہے، جبکہ دوسری طرف صوبائی دارالحکومت کے تھانہ سی ڈویژن اور ہشت نگری کے عملہ کو معطل کر کے تحقیقات کرنے پر بھی عمل نہیں ہو سکا، تاہم روایتی سست رفتار تحقیقات اور کاغذی کارروائی کا سلسلہ جاری ہے، اس سے پہلے پولیس تھانہ ہشت نگری پر ہی شہری کو حبس بے جا میں رکھ کر سندرخانی انگور کی پیٹیاں منگوانے، رقم لینے اور دیگر مطالبات منوانے کی شکایت کے علاوہ صحافی کے خلاف سازش کے تحت جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے کی شکایات بھی سامنے آ چکی ہیں، ان واقعات کی شکایت دیگر افسران اور حکام سمیت آئی جی پولیس ناصر خان درانی کو بھی کی گئی، لیکن ایک طرف سائلین پر دباؤ ڈال کر راضی نامے کے نام پر من مانا بیان لے کر تحقیقات کو ٹھپ کر دیا گیا جبکہ دوسری طرف تحقیقات میں اپنے پیٹی بندوں کو روایتی طور پر بچا لیا گیا۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے باوجود پولیس کے عتاب کا نشانہ بننے والے شہریوں کو حبس بے جا سے نکالنے کیلئے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو براہ راست مداخلت کرنا پڑ رہی ہے، یہ بھی قابل غور ہے کہ حکومت بااثر شہری یا ایسے شہری جن کی رسائی اوپر تک ہے کی فریاد پر تو فوری حرکت میں آ جاتی ہے لیکن جن بے بس لوگوں کی آہ بھی دب جاتی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔