نظریہء توازن کا ظہور
سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نا اہلی سے متعلق کیسوں کا فیصلہ سنایا، اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار خود کر رہے تھے
۔ عمران خان کو الزامات سے بری کر دیا گیا جبکہ جہانگیر ترین آئین کی شق 62(1)(f) کی زد میں آکر تاحیات نا اہل ہوگئے۔کورٹ روم نمبر ایک میں جب یہ فیصلہ سنایا جا رہا تھا ، میں سوچ رہا تھا کہ نظریۂ ضرورت کے ساتھ اب نظریۂ توازن کا ظہور بھی ہو گیا ہے۔
اگلے کچھ مہینوں یا ایک آدھ سال میں واضح ہو جائے گا کہ ایک ایسا ملک جو سیاسی انجینئرنگ کے نئے مراحل سے گذر رہا ہے، کس حد تک اس کاری گری کا متحمل ہو سکتا ہے۔
ایک عام پاکستانی تو 70 سال سے شب و روز تماشے دیکھ ہی رہا ہے، اب اگر نظریۂ توازن بھی آ گیا ہے تو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا گل کھلاتا ہے۔
جن دنوں پانامہ کیس سنا جا رہا تھا، بنچ میں بیٹھے ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ ہم وہ فیصلہ دیں گے جو بیس سال یاد رکھا جائے گا۔
میں نے ان دنوں بھی ایک کالم میں عرض کی تھی کہ جج صاحب کو بیس سال تک یاد رکھا جانے والا فیصلہ کرنے کی بجائے انصاف پر مبنی فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ بیس نہیں بلکہ دو سو سال تک یاد رکھا جاتا ہے کہ کون سا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا اور کون سا کس مصلحت کے تابع ، خیر پانامہ کیس میں جج صاحبان نے بیس سال تک یاد رکھا جانے والا فیصلہ سنایا۔ کچھ ایسا واقعہ ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، جب جنرل مشرف کی طرف سے کئے گئے این آر او کے خلاف ڈاکٹر صاحب کی سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کے دوران ایک فاضل جج صاحب نے کہا کہ ہم وہ فیصلہ کریں گے جس سے اخلاقیات کی نشاۃِ ثانیہ ہو گی تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ میں یہاں قانون کے مطابق فیصلہ لینے آیا ہوں ، اخلاقیات کی نشاۃِ ثانیہ کروانے نہیں۔ پھر سپریم کورٹ کے ججوں کے رویہ سے مایوس ہو کر ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی پٹیشن واپس لے لی۔
جس دن کسی اہم کیس کا فیصلہ آنا ہو، صبح سے ہی ٹی وی چینل چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ آج بہت تاریخی دن ہے۔ خیر سے اب تو ایسے ’’تاریخی‘‘ دنوں کی بہتات ہو گئی ہے، شائد اس لئے بھی اب فیصلوں میں انصاف سے زیادہ تاریخ کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
میرے خیال میں سپریم کورٹ کو اب سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور وہ ’’تاریخی‘‘ فیصلوں سے باہر نکل کر قانون پر مبنی فیصلے سنائیں۔ کہا جاتا ہے کہ جج نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں تو کئی سال سے جج حضرات ٹیلیویژن پر چلنے والے اپنے ٹکرز کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں، حالانکہ ٹیلیویژن ٹکرز سے ہونے والی مشہوری چاہے کسی کی بھی ہو، اس کا دورانیہ انتہائی مختصر ہوتا ہے۔
لگتا ہے اب کچھ عرصہ تک ہر کیس کے فیصلے میں جج حضرات کو پانامہ کیس کی صفائیاں بھی دینا پڑیں گی۔شاید اسی لئے مریم نواز شریف کو ٹویٹ کرنا پڑا کہ انصاف خود بولتا ہے، اسے کسی تشریح، تفسیر،تقریر یا اضافی نوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جہاں تک جسٹس فیصل عرب کے اضافی نوٹ کا تعلق ہے، اسے پڑھنے کے لئے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے لنک پر اتنا رش ہو گیا ہے کہ وہ چوک ہو گیا ہے، اس لئے بہت سے لوگ یہ’’ تاریخی ‘‘اضافی نوٹ نہیں پڑھ پا رہے۔
دہرا معیار کیا ہوتا ہے؟ پانامہ کیس کا فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل تھا،ان میں سے546 صفحات میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کوئی بے قاعدگی یا کرپشن نہیں پائی گئی۔
صرف ایک صفحہ ایسا تھا جس کی 14 لائنیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے سے متعلق تھیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا گیا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں بیٹے سے تنخواہ (جو کبھی لی بھی نہیں گئی) کا ذکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
عمران خان نے اپنا لندن والا فلیٹ 1983 ء میں خریدالیکن انیس برس تک کسی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کیا، 2002ء میں جنرل مشرف کی اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں پہلی دفعہ یہ فلیٹ ظاہر کرکے اسے وائٹ کر لیاگیا تھا۔ عدالت کے کئے گئے فیصلہ کے مطابق یہ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وائٹ کرنے کے بعد یہ وائٹ ہو گیا، چلیں مان لیا کہ وائٹ ہو گیا لیکن 19 سال تک اپنے ٹیکس ریٹرنز میں اسے چھپانا تو وائٹ نہیں ہوتا۔
پانامہ فیصلہ میں بنائے گئے معیار کے مطابق عمران خان بھی صادق اور امین نہیں ہو سکتے۔ یہی دہرا معیار ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کی غلطی پر ایک شخص کی گردن دبوچ لی جائے اور دوسرے کو کلین چٹ دے دی جائے۔
میاں نواز شریف کے کیس میں ایک خیالی تنخواہ پرپکڑ کر لی گئی جبکہ عمران خان کے کیس میں نیازی سروسز کی طرف سے کی گئی ہزاروں پونڈ کی فزیکل ٹرانزیکشنز کو نہ صرف نظر انداز کر دیا گیا بلکہ جج حضرات عمران خان کے وکیلوں سے بڑھ کر اس کی وضاحت خود ہی کرتے رہے، گویا وہ جج بھی تھے اور عمران خان کے وکیل بھی۔
سپریم کورٹ چونکہ نئی نئی مشرف بہ نظریہ توازن بھی ہوئی ہے تو اپنے تئیں توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی نوعیت کی ایک غلطی پر جہانگیر ترین کی گردن شکنجہ میں آ گئی۔
انجینئرز نے عمران خان کو صاف باہر نکالنے کے لئے جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنادیا جس پر مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے، لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
جب میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ فیصلہ آیا تھا تو کچھ قانونی ماہرین کا تبصرہ تھا کہ چلیں ایک فیصلہ تو آگیا ہے لیکن اب آگے دیکھنے کی چیز یہ ہوگی کہ عدلیہ نے کوئی معیار مقرر کیا ہے یا وہ دہرے معیار ہی سے کام لے گی؟ عمران خان کے فیصلے کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ان قانونی ماہرین کا خدشہ درست تھا۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھنا ہو گا کہ یہ دہرا معیار پاکستانی قوم کو ہضم ہوتا ہے یا نہیں؟ میاں نواز شریف نے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی تھی جس کے نتیجہ میں مارچ 2009ء میں اس وقت کی حکومت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے برطرف شدہ ججوں کو بحال کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ پاکستان میں عدلیہ بحال ہو گئی ہے، لیکن ساڑھے آٹھ پونے نو سال گذرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی۔پاکستان میں عدلیہ تو بحال ہو گئی تھی لیکن عدل ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔
اس وقت تو صرف نظریۂ ضرورت تھا، اب اس کے ساتھ نظریۂ توازن کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ کیا میاں نواز شریف کو اس ایک آنچ کی کسر پوری کرنے کے لئے ایک اور تحریک چلانا پڑے گی؟ قرائن اور آثار بتاتے ہیں کہ سیاسی انجینئرز کے کمالات کو روکنے اور ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے میاں صاحب کو یہ مشکل کام بھی کرنا ہوگا۔
لندن سے وطن واپسی کے وقت میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے، میاں صاحب اگر عدل کو صحیح معنوں میں بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ ملک کو مزید ٹکرے ہونے سے بچا سکتے ہیں۔