اب قومی اسمبلی کی کمیٹیوں پر ڈیڈ لاک
قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل پر ایک بار پھر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے،اپوزیشن نے غیر اہم کمیٹیوں کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر کے خزانہ، داخلہ اور خارجہ سمیت اہم قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی مانگ لی ہے،حکومت اور اپوزیشن میں پارٹی تناسب کے حساب سے سربراہی کا معاملہ طے پا گیا تھا،جس کے مطابق حکومت کو23 اور اپوزیشن کو 19قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی ملے گی، مجموعی طور پر42 قائمہ کمیٹیاں تشکیل پانی ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ نہ تو حکومت تمام اہم کمیٹیاں اپنے ارکان کے حوالے کرنے پر اصرار کرے اور نہ ہی اپوزیشن، فریقین کو ہر قسم کی کمیٹیاں ’’حصہ بقدرِ جُثہ‘‘ کے حساب سے تقسیم کر دینی چاہئیں،یعنی کچھ اہم کمیٹیاں حکومت کے حصے میں آ جائیں اور اِسی طرح بعض دوسری ایسی کمیٹیاں اپوزیشن ارکان کو مل جائیں اگر حکومت اہم کمیٹیوں پر قبضہ کر کے نسبتاً غیر اہم کمیٹیاں اپوزیشن کو دینے کی چال چلے گی تو شکایت پیدا ہو گی،تمام تر تقسیم انصاف کے اصولوں کے مطابق ہو جائے تو کسی بھی فریق کو اعتراض نہیں ہو گا۔
اب تک کا تنازعہ تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی پر تھا، حکومت قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو اس کا سربراہ بنانا نہیں چاہتی تھی،جبکہ حزبِ اختلاف نے اس معاملے میں متفقہ موقف اختیار کیا ہوا تھا کہ روایت کے مطابق پی اے سی کی سربراہی قائد حزبِ اختلاف کا استحقاق ہے، سپیکر قومی اسمبلی اور بعض دوسرے وزراء کی کوششوں سے یہ معاملہ تو حل ہو گیا،لیکن حکومت کے اندر کئی وزراء اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا حادثہ ہو جائے جس کے نتیجے میں شہباز شریف کو اس کی سربراہی نہ ملے جو وزراء یہ موقف اختیار کئے بیٹھے ہیں بظاہر لگتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو خواہ مخواہ اپنی اَنا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے اور اب بھی وہ اڑچن ڈالنا چاہتے ہیں،جب اُن کی دال نہیں گلی تو انہوں نے باقی کمیٹیوں کی تشکیل میں اپوزیشن کو غیر اہم کمیٹیوں کی سربراہی پر ٹرخانے کا منصوبہ بنا لیا،لیکن اپوزیشن نے جواب میں اہم کمیٹیوں کی سربراہی مانگ کر ایک بار پھر ڈیڈ لاک پیدا کر دیا ہے، جس کا بہترین حل تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اندر رکنیت کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کے حصے میں23 قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی آئے گی، جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو 19کمیٹیوں پر اپنے چیئرمین منتخب کرا نے کا استحقاق ہو گا، اہم وزارتوں کی ایک فہرست بنا کر تناسب کے حساب سے فیصلہ کر لیا جائے اور ڈنڈی مارے بغیر اپوزیشن کو اس کا حصہ دے دیا جائے تو سارا مسئلہ حل ہو جائے گا،لیکن لگتا ہے حکومت کے بعض ارکان اس معاملے کو بھی لٹکانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں پی اے سی کے مسئلے پر جو خفت اٹھانا پڑی ہے، اس کا کچھ نہ کچھ ازالہ تو ہو سکے، تاہم یہ معاملہ اسی وقت حل ہو گا، جب پی اے سی کے حل شدہ معاملے پر وزراء کی غیر ضروری بیان بازی کا سلسلہ رُکے گا اگر ایسا نہ ہوا اور اپوزیشن بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہی تو جو انڈر سٹینڈنگ اس معاملے پر ہو چکی ہے وہ بھی اکارت چلی جائے گی اور قانون سازی کا کام آگے نہیں بڑھ سکے گا،اس معاملے میں پیش رفت حکومت ہی کے مفاد میں ہے،کیونکہ تیز رفتار قانون سازی سے بطور مجموعی حکومتی مفاد زیادہ وابستہ ہے، اپوزیشن کا کیا ہے اِس معاملے میں تاخیر سے اسے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
قومی اسمبلی کی جو بھی کمیٹیاں بنائی جائیں اصل ضرورت تو یہ ہے کہ ان کمیٹیوں کو زیادہ بااختیار بنایا جائے۔امریکہ میں کانگرس کی کمیٹیاں اتنی بااختیار ہیں کہ وزیروں، سفیروں،ججوں، جرنیلوں اور مملکت کے دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کا تقرر،اُن کی توثیق سے مشروط ہوتا ہے یہاں تک کہ آرمی چیف کی سربراہی بھی ڈیفنس کمیٹی کی منظوری کے بغیر کسی جرنیل کو نہیں مل سکتی اور نہ ہی کوئی سفیر اس وقت تک کسی مُلک میں تعینات ہو سکتا ہے، جب تک فارن ریلیشنز کمیٹی اس کی منظوری نہ دے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی عہدے پر کوئی منظور نظر تقرر نہیں ہو سکتا، ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ صدر نے ایک عہدے پر کسی کا تقرر کیا اور کانگرس کی کمیٹی نے اس کی منظوری نہ دی اور دُنیا کا طاقتور ترین صدر کچھ بھی نہ کر سکا، کیا پاکستان میں کبھی کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ امریکی کانگرس کی طرح پاکستان کی پارلیمانی کمیٹیاں بھی ایسے اختیارات سے لیس ہوں،ہماری کمیٹیاں تو کسی سیکرٹری کو طلب کرتی ہیں تو کئی کئی طلبیوں پر وہ بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتا اور اگر ہو جائے تو ان کمیٹیوں کے احکامات کی پروا بھی نہیں کرتا،کیونکہ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کمزور کمیٹیاں طاقتور بیورو کریسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں یہ تو سویلین محکموں کا حال ہے، کیا ہماری کوئی کمیٹی یہ تصور کر سکتی ہے کہ فوج کے کسی اعلیٰ عہدیدار کی ’’توثیق‘‘اس کی منظوری سے مشروط ہو جائے،لیکن جن ممالک میں ایسی نظیریں موجود ہیں، وہاں اعلیٰ عہدوں پر تقرر میں ذاتی خواہشات اور دوستیوں کا عمل دخل بہت کم رہ جاتا ہے۔
ہماری پارلیمانی کمیٹیاں جیسی بھی ہیں اگر ان کی ورکنگ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر بنا دی جائے تو گورننس بھی بہتر ہو سکتی ہے اور حکمرانوں کے اختیارات پر ایک طرح کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی رائج کیا جا سکتا ہے،لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جھگڑا اِس بات پر ہو رہا ہے کہ داخلہ اور خارجہ امور کی کمیٹیاں اپوزیشن کو نہ دی جائیں، حالانکہ اگر ایسا ہو جائے تو یہ گورننس کی بہتری کے لئے بہت اچھا ہے، لیکن لگتا ہے سارا زور اسی بات پر لگایا جا رہا ہے کہ اپوزیشن نسبتاً غیر اہم وزارتوں کی کمیٹیوں کی سربراہی پر مطمئن ہو جائے، بعض وزارتیں ایسی ہیں جو وزیر لینا پسند نہیں کرتے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی وزیر خارجہ تھے تو اس وقت کے وزیراعظم نے اُن کا محکمہ تبدیل کرنے کی کوشش کی تو شاہ محمود قریشی نے استعفا دے دیا تھا، موجودہ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول کو بھی گِلہ ہے کہ وہ ڈاکٹر ہیں، لیکن اُنہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی گئی ہے،اسی طرح بعض دوسرے وزیر بھی پسند کی وزارتیں چاہتے ہیں،اس کا حل بھی یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں کو مضبوط بنایا جائے،لیکن جہاں لوگ پسند کی وزارتوں پر ضد کرتے ہوں وہاں غیر اہم کمیٹیوں کی سربراہی کرنا کون پسند کرے گا؟حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر ڈیڈ لاک جتنی جلد ختم ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے تاکہ قومی اسمبلی کی کارروائی آگے بڑھ سکے، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اِس ضمن میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے،کسی بھی جانب سے ہٹ دھرمی کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس طرح پارلیمینٹ کے بارے میں کوئی خوشگوار تاثر قائم ہوتا ہے۔