تبدیلی اور معیشت

تبدیلی اور معیشت
تبدیلی اور معیشت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہے ، سب سے زیادہ تبدیلی معیشت کے شعبے میں آ رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے متاثرکن اندازِ کلام سے شائد ہی کسی کو انکار رہا ہو، لیکن ذمہ داریاں سنبھالنے کے چارماہ کے اندر جس طرح انہوں نے پاکستانی معیشت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، اس کا اندازہ پہلے شائد کسی کو نہیں تھا۔معیشت کے کئی indicators اس تبدیلی پر سجدہ شکر بجا لا رہے ہیں، جیسے روپے کی قدر مسلم لیگ(ن) کے دور کے مقابلے میں پینتیس چالیس فیصد کم ہو چکی ہے۔

پاکستانی روپیہ جو پچھلے دور میں ایک ڈالر کے عوض 100 روپے سے زیادہ کا نہیں ہو پا رہا تھا،اب 140 کے آس پاس فراٹے بھررہا ہے اور ایک دوحکومتی وزیر تو اسے ابھی اور آگے لے جانے کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں،جیسے کراچی کے ایک پراپرٹی ڈیلر علی حیدر زیدی، جو خیر سے اب پورٹس اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر ہیں۔ اسی طرح سٹاک مارکیٹ انڈیکس بھی تقریباً 35فیصد کے لگ بھگ کم ہو چکا ہے۔پچھلے دورِ حکومت میں 54 ہزار پر رہنے والی مارکیٹ کے نخرے اب 38 ہزار پر بھی نہیں سنبھالے جا رہے۔

گیس، بجلی اور پٹرول کے نرخ موجودہ حکومت نے ایک سے زائد بار بڑھائے ہیں، جس کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی عام آدمی کے بجٹ کو تہس نہس کرتا آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ تین وہ بنیادی چیزیں ہیں، جن کی وجہ سے پیداواری لاگت اور ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، نیزگیس، بجلی اور پٹرول وغیرہ میں کئے گئے ہر اضافے کے بعد ضرورت کی ہر چیز خود بخود مہنگی ہوجاتی ہے۔

گیس نہ صرف بہت مہنگی کر دی گئی ہے،بلکہ اس کی سپلائی میں تعطل بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ابھی کراچی سمیت سندھ کو گیس کی سپلائی چھ سات دن بند رہنے کی وجہ سے سی این جی سٹیشن بند ہو گئے، جس کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہو گئی اور عوام ایک ہفتہ سڑکوں پر پیدل خوار ہوتے اور تبدیلی کو کوستے رہے۔

مسلم لیگ(ن) نے اپنے دور میں بجلی کی قلت پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا اور سولہ سولہ گھنٹوں کی بجائے لوڈ شیڈنگ دو تین گھنٹوں کی رہ گئی تھی۔ موجودہ حکومت کو وراثت میں بجلی کی طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ نہیں ملی تھی جیسی نواز حکومت کو آصف علی زرداری حکومت سے ملی تھی، لیکن عمران خان حکومت نے گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور سپلائی میں تعطل سے عوام کے کڑاکے نکال کر کسر پوری کر دی۔
مزے کی بات ہے کہ جب اسد عمر اپوزیشن میں تھے تو روپے کی قدر میں ایک دو روپے کی کمی یا سٹاک انڈیکس میں دو تین سو پوائنٹس گر جانے پر اسمبلی اور میڈیا دونوں جگہوں پر باقاعدہ بین ڈالا کرتے تھے، لیکن اب روپے کی قدر اور سٹاک مارکیٹ کے سجدہ ریز ہونے پر خود بھی مطمئن ہیں اور قوم کو بھی مطمئن رہنے کی بار بار تلقین کرتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین تبدیلی البتہ فچ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی طرف سے پاکستان کی انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ B) (سے کم ہو کر (B-minus) کر کے کی گئی ہے۔ان دنوں جب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکراتی عمل سے گذر رہے ہیں اور نیا سال شروع ہوتے ہی نیا راؤنڈ ہو گا، کم ہوتی ہوئی کریڈٹ ریٹنگ آئی ایم ایف کے سامنے ہماری بارگین کرنے کی صلاحیت پر انتہائی منفی اثرات ڈالے گی۔

کامن سینس کی بات یہ ہے کہ اگر ان چار ممالک سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا سے کچھ خاص ملا ہوتا تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے فیصلہ کن دور سے پہلے فچ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہماری کریڈٹ ریٹنگ کم نہ کرتی۔ چین سے واپسی پر جب یہ بتایا گیا تھا کہ چین بہت کچھ دے رہا ہے، لیکن اس کا اعلان نہیں کیا جا سکتا تو لوگوں کو اصل صورتِ حال کا وہیں اندازہ ہو گیا تھا۔

عالمی مالیاتی نظام میں مالیاتی اداروں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ، ایشین یا افریقن ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ کے علاوہ تین کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں بہت اہم ہیں ۔

اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ مالیاتی ادارے اور قرضے دینے والے ممالک(بشمول چین) ان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی رپورٹوں کو بہت اہم سمجھتے ہوئے قرضے دینے کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔یہ تین کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں سٹینڈرڈ اینڈ پور(standard and poor)، فچ(fitch) اور موڈیز(moodys) ہیں۔ تینوں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کا تعلق امریکہ سے ہے ،تینوں کا ہیڈ کوارٹر نیو یارک میں ہے اور تینوں کو قائم ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔

پچھلے سو سے زائد برسوں، خصوصاً دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی مالیاتی نظام ان ہی اداروں اور ایجنسیوں پر استوار ہے اور ابھی مستقبل قریب میں اس میں کسی تبدیلی کے کوئی آثار نہیں نظر آتے۔

جب کسی مُلک کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوتی ہے تو اسے زیادہ آسانی سے قرضے ملتے ہیں،لیکن گرتی ہوئی کریڈٹ ریٹنگ کے ساتھ قرضوں کا حصول مشکل ہوتا جاتا ہے اور شرح سود بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

فچ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی طرف سے پاکستان کو اس موقع پر ڈاؤن گریڈ کرنے سے ہماری آئی ایم ایف سے بارگین پر منفی اثرات پڑیں گے اور شرائط کی سختی میں اضافہ ہو گا،جس کے نتیجے میں آنے والا سونامی بہر حال عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
فچ کی طرح سٹینڈرڈ اینڈ پور نے بھی پاکستان کی کریڈٹ B-minusپر رکھی ہوئی ہے،جبکہ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ B3 اور آؤٹ لک negative رکھی ہوئی ہے۔ یہاں یہ یاد کر لینے میں میں کوئی حرج نہیں کہ جب میاں نواز شریف کی حکومت آئی تھی،اس وقت بھی ان تینوں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی میں چل رہی تھی، لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پالیسیوں کی کامیابی کے بعد تینوں ایجنسیوں نے اسے مثبت کیٹگری میں شامل کر لیا تھا۔

اب جب سے تبدیلی آئی ہے، پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کا مثبت سے منفی کی طرف سفر دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ایف اے ٹی ایفکی بھی ہے کہ آصف علی زرداری کے دور میں پہلے پاکستان گرے لسٹ میں گیا،پھر بلیک لسٹ میں۔ اس کے بعد میاں نواز شریف کے دور میں پہلے بلیک لسٹ سے نکل کر گرے لسٹ میں آیا اور پھر گرے لسٹ سے بھی نکلنے میں کامیاب ہوا۔

اب دوبارہ گرے اور پھر بلیک لسٹ کی طرف جانے کے خدشات موجود ہیں اور اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کئے تو ہم ان لسٹوں کے اسیر بن کر رہ جائیں گے۔کسی بھی مُلک کی معیشت اور سیاست آپس میں جڑی ہوتی ہیں۔

سیاست کو بلڈوز کرکے معیشت کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان میں چاروں مارشل لا ادوار میں اگر وقتی طور پر معیشت بہتر ہوئی بھی تو وہ برقرار نہ رکھی جا سکی، کیونکہ سیاسی عمل کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ چاروں فوجی ڈکٹیٹروں کو الیکشن کرانے پڑے،کیونکہ یہ ان کی مجبوری بن چکی تھی۔ مُلک میں کنٹرولڈ جمہوریت کے تجربات ماضی میں بھی بار بار ناکام ہو چکے ہیں۔

کنٹرولڈ جمہوریت میں اپنی مرضی کے لوگ منتخب کرکے انہیں فرنٹ پر رکھ کر پراکسی سے حکومت چلانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اب تک کے تمام تجربات نے ثابت کیا ہے کہ پراکسی حکومت سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے مسائل حل نہیں کر سکتی،مُلک سیاسی طور پر چوں چوں کا مربہ اور اقتصادی طورپر ناکام ہو جاتا ہے۔
ماضی میں بھی بار بار ایسا ہوا اور آئندہ بھی جب کبھی یہ کوشش ہوئی،ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کی رَٹ لگانا شروع کی تو مَیں نے لکھا کہ ایسا کرنے سے ملک میں سیاسی اور اقتصادی ریورس گیئر لگ جائے گا۔ایک ناتجربہ کار حکومت نے چار مہینے انتقام جیسی کاروائیاں کرکے دیکھ لیا کہ اس طرح ملک آگے نہیں جا سکتا۔

اگر یہ کہہ کر جان چھڑا بھی لی جائے کہ سیاسی مخالفین پر مقدمات حکومت نے نہیں،بلکہ احتساب اداروں نے بنائے ہیں تو بھی پارلیمینٹ میں حکومتی رویہ پارلیمانی اور جمہوری روایات کے مطابق ہونا چاہئے تھا، لیکن بدقسمتی سے انڈر 19 ٹیم کو یہ بات بہت دیر سے سمجھ آنی شروع ہوئی ہے۔

حکومت نے چار مہینے بے جا ضدوں میں ضائع کر دیئے،جس کی وجہ سے پارلیمینٹ منجمد جیسی رہی،نہ قائمہ کمیٹیاں بنیں، نہ قانون سازی ہوئی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پر وزیراعظم اور وفاقی وزراء چھوٹے بچوں کی طرح ضد پر اڑے رہے۔ اتنا کچھ کھونے کے بعد اب حکومت کو اگر اپنی غلطیوں کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہے تو اسے چاہئے کہ انتقامی فریم آف مائنڈ سے باہر نکل کر جمہوری فریم آف مائنڈ میں آئے۔جمہوری روایات میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین عام طور پر اپوزیشن سے ہوتا ہے۔

یہ ایک صحت مند جمہوری روایت ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے دیا گیا سگنل جمہوری روایات کی واپسی کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے، اگر حکومت نیک نیتی سے ملک چلانا چاہے۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کی ایوان میں تقریر سیاسی نا پختگی کی علامت تو تھی ہی، لیکن ان کی دھمکی ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘کو بھول کر مُلک کو ریورس گیئر کی بجائے آگے کی طرف چلنے والا گیئر لگائیں ، سیاسی طور پر بھی اور اقتصادی طور بھی۔

معیشت کی ترقی کے لئے تبدیلی کی نہیں،بلکہ تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر جب جانے والی حکومت کے دور میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.8 فیصد رہی ہو اور ماہرین اس کے مزید اوپر جانے کی پیش گوئیاں کر رہے ہوں۔ اگر معیشت کی تباہی جاری رہی تو ماہرین کے مطابق یہ 4 فیصد سے بھی کم ہو جائے گی اور اس کی ذمہ دار تبدیلی اور سونامی ہوں گی۔

مزید :

رائے -کالم -