افغانستان کی کلید ِ امن کس کے پاس؟

افغانستان کی کلید ِ امن کس کے پاس؟
افغانستان کی کلید ِ امن کس کے پاس؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افغانستان میں امن ایسے ممکن نہیں ہے، جیسے لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ابھی تک یعنی 2018ء کے اختتام تک فریقین کا تعین بھی نہیں کیا جا سکا ہے، چین کیسے فریق ہو گیا؟ ہندوستان کیسے سٹیک ہولڈر ہے؟ ایران کا یہاں کیا ہے، جس کے پیش نظر اُسے فریق مانا جا رہا ہے؟ روس کو بھی سٹیک ہولڈر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اور اِس کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالا گیا ہے، اس قضیے کے دو اصل فریق ہیں ایک افغانستان کے عوام، افغانستان کے باسی اور دوسرا حملہ آور گروہ جن کی قیادت امریکہ کے پاس ہے۔

جب2001ء میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ نے عالمی جنگ کا آغاز کیا تو برطانیہ و یورپ اور مغربی عیسائی دُنیا سمیت ناٹو کے تمام ممالک امریکی اتحاد میں شامل ہو گئے اور افغان عوام پر آتش و آہن کی بارش شروع کر دی۔

ناٹو اور ایساف کے پرچم تلے درجنوں اقوام کی مسلح قوت یہاں اُتاری گئی،زمین اور فضا ان کے قبضے میں چلی گئی، طالبان پسپا ہوتے چلے گئے۔امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ چوہے بلوں میں چھپنے لگے ہیں‘‘۔امریکی صدر نے یہ بات نفرت و حقارت اور تکبر سے کہی تھی انہیں یقین تھا کہ امریکہ فاتح ہو گا اور طالبان کا خاتمہ ہو جائے گا،لیکن وہ شدید غلط فہمی کا شکار تھے۔

شاید افغانوں کی ہزاروں سالہ تاریخ سے واقف نہیں تھے کہ افغانوں نے کبھی حملہ آوروں کا سامنے سے مقابلہ نہیں کیا،بلکہ جارح اور حملہ آور پر گوریلا جنگ، جنگ مزاحمت اور مقاومت مسلط کی۔
افغان دشمن کو گھیر گھار کر اپنے علاقوں میں لاتے ہیں،بلکہ انہیں موقع دیتے ہیں، ترغیب دیتے ہیں کہ وہ آگے آئے اور فتح یابی کے تصور کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جائے اور افغانستان میں بیٹھ جائے۔ پھر افغان ان پر حملہ آور ہوتا ہے، چھپ چھپا کر اسے زخمی کرتا ہے، ہلاک کرتا ہے اس کی سپلائی لائن قطع کرتا ہے، اسے پریشان کرتا ہے۔ مرضی سے حملہ آور ہوتا ہے،دشمن کو نڈھال کر کے شکست دیتا ہے،ہلاک کرتا ہے، تباہ و برباد کرتا ہے۔

افغان یہ کام ایک ہی طریقے سے صدیوں سے کر رہا ہے، مزاحمت اور مقاومت اس کے ڈی این اے میں شامل ہو چکی ہے۔گزشتہ سے پیوستہ صدی میں اینگلو، افغان جنگوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیجئے افغانوں نے کس طرح برطانیہ عظمیٰ کی افواج کو ہلاک کیا، ایک پوری نسل انگریزوں کے خلاف مزاحمت اور مقاومت میں کھپ گئی یہ وہ دور تھا جب برطانیہ عظمیٰ کی حکومتوں میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آخری اینگلو، افغان جنگ میں افغانوں نے برطانوی فوج کے ایک شریک ڈاکٹر کو زندہ چھوڑا تھا تاکہ وہ واپس جا کر اپنی قوم کو تباہ ہونے والی برطانوی افواج کا احوال بتا سکے۔ افغانوں نے جارح انگریزوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے،بلکہ اُنہیں انہی کی زبان، یعنی طاقت کے ذریعے شکست سے ہمکنار کیا۔

پھر گزشتہ صدی میں دوسری بڑی عالمی طاقت، اشتراکی ریاست، سوویت یونین نے دسمبر79ء میں افغانستان پر حملہ کیا اور اسے اشتراکی ریاست میں ضم کرنے کی کوشش کی۔امریکی صدر جمی کارٹر نے افغانستان کو بھولی بسری داستان قرار دے کر پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ پاک۔

افغان سرحد کو موثر بنانے کی منصوبہ بندی کرے اس کے لئے پاکستان کو300ملین امریکی ڈالر کی امداد کی بھی پیشکش کر دی۔پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق نے اسے ’’مونگ پھلی‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا اور افغانستان کے عوام کی جدوجہدِ آزادی کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اشتراکی افواج اپنی ساری سفاکیت اور جبرو استبداد کے باوجود افغان قوم کا مقابلہ نہ کر سکی۔

مجاہدین افغانستان نے جارح قوم کی افواج قاہرہ کو شکست سے ہمکنار کر دیا۔ ذرا وہ وقت یاد کریں جب جنیوا میں امن مذاکرات ہو رہے تھے۔ اس وقت بھی یہی مسئلہ تھا کہ حقیقی فریق کون ہیں، امریکہ اس مسئلے کا فرق ہر گز نہیں تھا، لیکن وہ مذاکرات میں شریک تھا۔

اس دوران افغان مجاہدین کے لیڈر انجینئر گلبدین حکمت یار نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ ملاقات سے صرف اِس لئے انکار کیا تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہونے کا امکان تھا کہ امریکہ اس جنگ میں فریق ہے، جو جارح اشتراکی فوجوں اور افغان عوام کے درمیان جاری تھی۔جنیوا امن معاہدہ پاکستان، سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہوا۔ افغانستان میں افغان جہاد کے پشتبان جنرل ضیا الحق اس معاہدے کے حق میں نہیں تھے،کیونکہ اس کے نتیجے میں اشتراکی افواج کی باعزت واپسی یقینی تھی۔امریکہ بھی یہی چاہتا تھا کہ اشتراکی افواج بس واپس چلی جائیں اور افغان مجاہدین کی فتح کا تاثر قائم نہ ہو، جبکہ جنرل ضیا الحق جہادِ افغانستان کو اس کی اصلی اور حقیقی منزل تک پہنچانے کا عزم لئے ہوئے تھے،اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو اپنا کریڈٹ بنانے کے چکر میں جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے بے تاب تھے۔

وزیر خارجہ زین نورانی اس کام کے لئے جنیوا گئے،جنرل ضیا الحق اور آئی ایس آئی کے جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل حمید گل کی طے شدہ پالیسی کے برعکس انہوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کر کے مجاہدین کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔

اس معاہدے کے نتیجے میں جارح افواج کی باعزت واپسی ممکن ہو گئی،لیکن افغان عوام آزادی کا سورج طلوع ہوتے نہ دیکھ سکے۔ پاکستان کی افغان پالیسی حتمی نتائج ظاہر نہ کر سکی۔ اشتراکی افواج کی باعزت واپسی کے بعد کابل میں اشتراکیوں کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت کو گرانے کی کاوشیں شروع ہوئیں۔

ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے لئے آپریشن جلال آباد بری طرح فیل ہو گیا۔اس کے بعد کابل میں مجاہدین کی حکومت کے قیام کے حوالے سے خانہ جنگی شروع ہو گئی،جنیوا امن معاہدہ خانہ جنگی لے کر آیا۔
اب دیکھیں جاری افغان جنگ میں صرف دو فریق ہیں ایک جارح ملک امریکہ اور اس کے اتحادی،دوسرا افغان عوام جو امریکی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔

افغانوں نے کبھی مشترکہ لیڈر شپ کے تحت جنگ نہیں لڑی۔ افغان قبائلی معاشرہ ہیں،وہاں سرداروں اور جنگجو لیڈروں کا راج ہے۔ وہ سب ایک بات پر متفق ہیں اور وہ ہے جنگ۔

جنرل ضیا الحق کا کمال تھا کہ انہوں نے درجنوں، سینکڑوں وار لارڈز کو سات جماعتی اتحاد کی لڑی میں پرو کر عالمی طاقت کے خلاف لانچ کیا، اُنہیں ایک راستے پر لگایا اور پھر نو سالہ تاریخی جدوجہد کے ذریعے سوویت افواج کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ افغان عوام طالبان کے پرچم تلے تاریخی جدوجہد کر رہے ہیں۔

دورِ جدید کی تاریخ اقوام میں حالیہ جنگ طویل ترین ہے، جو 18ویں سال میں داخل ہو چکی ہے۔ ایک طرف دُنیا کی جدید ترین افواج قاہرہ ہیں اور دوسری طرف افغان عوام۔امریکہ برطانیہ یہاں جدید سے جدید تر ہتھیار استعمال کر کے تھک ہار چکے ہیں،لیکن وہ افغان عوام کے جذبہ حریت کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔دُنیا کی عظیم سپریم پاور، تہذیبی طور پر غالب اور حاکم قوم افغانوں کے ساتھ مذاکرات کے ترلے لے رہی ہے۔ ہم ایک بار پھر اسی دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں جنیوا امن معاہدہ کی کاوش کی گئی تھی اس وقت بھی ہم امن کے مسئلے پر اختلاف رائے کا شکار تھے کہ معاہدہ ہونا چاہئے کہ نہیں اور اس کے فریقین کون ہوں گے۔

آج بھی ہم ویسی ہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں۔ بھارت،ایران، سعودی عرب،یو اے ای ، چین اس مسئلے کے حقیقی فریق نہیں ہیں،حقیقی فریق صرف تین ہیں ایک امریکہ، دوسرا افغان قوم براستہ طالبان اور تیسرا فریق پاکستان جو اِس جنگ سے براہِ راست متاثر ہے، بری طرح متاثر ہے ہم نے اِس جنگ میں 70ہزار سے زائد انسانوں کی قربان دی ہے، جس میں ہماری مسلح افواج کے جوان، افسران اور جرنیل بھی شامل ہیں۔ ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کے لوگ بھی شامل ہیں، بے شمار سویلین بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں،ہماری معیشت کا بھی بیڑہ غرق ہوا ہے۔
اس پس منظر میں امن مذاکرات بارے حقیقی رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ اولاً افغان مذاکرات کے فن سے نا آشنا ہیں،انہوں نے اپنی ہزاروں سالہ تاریخ میں کبھی بھی بات چیت کے ذریعے معاملات حل نہیں کئے،وہ ایک فن میں طاق ہیں اور وہ ہے بندوق کا استعمال۔انہوں نے ہمیشہ بندوق کی نالی کے ذریعے فتح حاصل کی ہے۔ امریکہ لامحدود عسکری طاقت رکھنے کے باوجود مذاکرات پر مجبور ہے تو اس کی وجہ افغانوں کا لازوال جذبۂ حریت ہے۔

طالبان افغانستان میں امن کے حوالے سے ایک نقاطی حل تجویز کر چکے ہیں اور وہ ہے امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء۔ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و امان تھا، پوست کی کاشت صفر تھی۔ طالبان کا مکمل کنٹرول تھا،افغان عوام اپنے آدرشوں کے مطابق زندگیاں گزار رہے تھے۔ جارح افواج کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں یہاں خانہ جنگی شروع ہوئی۔

امریکی افواج یہاں سے نکل جائیں تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔باقی رہی اشرف غنی کی حکومت تو وہ امریکیوں کی پٹھو ہے اس کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، افغان عوام اپنی حکومت کا خود فیصلہ کر لیں گے۔

ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان جنیوا امن معاہدے سے سبق حاصل کرے۔ طالبان کی عظیم جدوجہدِ آزادی کو امن مذاکرات کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے۔ جارح کو فتح مندی کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ افغانستان میں امن کی کلید طالبان کے پاس ہے، ہمیں اس کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -