تین مخدوم، تین کہانیاں

تین مخدوم، تین کہانیاں
تین مخدوم، تین کہانیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’ ملتان کے تین مخدوموں کو سیاست میں وہ مقام نہیں ملا جو ان کا حق تھا‘‘۔۔۔ جب مَیں نے ریستوران میں بیٹھے ساتھ والی میز پر لوگوں کی یہ بات سنی تو چونکا۔ یہ کن مخدوموں کی بات کر رہے ہیں؟ کان لگانے پر اندازہ ہوا کہ وہ شاہ محمود قریشی کا ذکر کر رہے ہیں، جنہیں آج کل ایک نوآموز نوجوان سیاستدان نے پریشان کر رکھا ہے۔

ملتان کے تین مخدوم یعنی مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی واقعی ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انہیں نمبر ون سیاستدان بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اگرچہ مناصب بہت بڑے ملے، مگر ان کا سیاسی قد کاٹھ نہیں بڑھنے دیا گیا یا پھر ان میں صلاحیت ہی نہیں تھی کہ بی کیٹیگری سے نکل کر اے کیٹیگری میں جا سکیں۔

آج کل دو مخدوموں، یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کا حال تو کچھ اچھا نہیں، اپنی سیاسی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں، تاہم شاہ محمود قریشی اقتدار میں ہیں اور وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہو کر اپنا سکہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ان کی شخصیت کو جس شخص نے گہنا دیا ہے وہ ملتان کا نوجوان سلمان نعیم ہے، جو انہیں صوبائی نشست پر شکست دے کر اسمبلی میں پہنچ گیا اور اب مخدوم صاحب کے ریڈار پر ہے، وہ اسے ہر صورت میں نا اہل کرانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اپنے منصب کے تقاضے اور اس حقیقت کو بھی بھول گئے ہیں کہ سلمان نعیم تحریک انصاف ہی میں شامل ہے اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو معمولی برتری دلوانے میں اس کا بھی ایک کردار رہا ہے۔
پچھلے ہفتے جب سلمان نعیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو آڑے ہاتھوں لیا تو مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ پارٹی میں مرکزی سطح کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود وہ نچلے درجے کی سوچ سے نہیں نکل سکے۔ اگر وہ اسی طرح سلمان نعیم کو ٹارگٹ کرتے رہے تو بعید نہیں آئندہ انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی نشست بھی اس نوجوان کی وجہ سے ہار جائیں گے۔

سلمان نعیم نے ان پر بدترین اقربا پروری کے الزامات لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی چن چن کر اپنے چہیتوں کو عہدے دے رہے ہیں، جبکہ تحریک انصاف کے حقیقی کارکنوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ملتان کے سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ جہانگیر ترین نے سلمان نعیم کی شکل میں شاہ محمود قریشی کے لئے ایک ایسا درد سر پیدا کر دیا ہے جس سے وہ چھٹکارہ حاصل کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔

انہیں اب ملتان کی فکر لگی رہتی ہے اور وزیر خارجہ ہونے کے باوجود اسلام آباد اس وقت جاتے ہیں، جب کسی بیرونی دورے پر جانا ہو وگرنہ زیادہ وقت ملتان میں گزارتے ہیں۔ملتان کے تینوں مخدوموں کے ساتھ اصل مسئلہ یہی رہا ہے کہ مشکل فیصلے کرنے کی قوت سے عاری رہے ہیں۔
اب جاوید ہاشمی ہی کو دیکھیں کتنا بڑا سیاسی سفر ہے، لیکن آج ان کی سیاست کو بریک لگی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہئے تھی اس وقت خاموش رہے اور جب انہیں سیاسی مصلحت سے کام لینا چاہئے تھا اس وقت خم ٹھونک کر سامنے آ گئے۔ آج وہ اپنی کتابوں میں اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ شریف خاندان کی سعودی عرب جلا وطنی کے دوران انہوں نے پارٹی کو زندہ رکھا۔ قید برداشت کی، مگر جب نوازشریف کی واپسی ہوئی تو چودھری نثار علی خان کو قائد حزب اختلاف بنا دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت ہاشمی صاحب کیوں چپ رہے، کیوں مصلحت کا راستہ اختیار کیا؟ اگر اس وقت یہ برداشت کر لیا تھا تو پھر آگے چل کر مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ پھر تو انہیں ہر صورت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنا چاہئے تھا ،مگر انہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا۔ جب تحریک انصاف اپنی تحریک کے عروج پر تھی، چلتی گاڑی سے جمپ لگا کر اتر گئے۔

یہ فیصلہ کتنا احمقانہ تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی ہکا بکا رہ گئی اور انہوں نے ہاشمی صاحب کو پارٹی میں لینے سے انکار کئے رکھا۔

یہ صورت حال آج تک برقرار ہے کہ جاوید ہاشمی کی فی الوقت سیاسی حیثیت واضح نہیں، وہ خود کو مسلم لیگ (ن) کا حصہ قرار دیتے ہیں ،تاہم واقعہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے باضابطہ طور پر ان کی شمولت کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے چند روز پہلے جو پریس کانفرنس کی وہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر اسی لئے نمایاں نہ ہو سکی کہ اس میں انہوں نے قومی اداروں پر حملے کی ساری حدیں پار کیں۔ حیرت ہے کہ جس بیانیہ کو خود نوازشریف چھوڑ چکے ہیں، جاوید ہاشمی اسے مزید مرچ مصالحے کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔

کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا سیاسی قد کاٹھ بڑھے گا؟ ایسی باتیں تو نہال ہاشمی بھی کرتے ہیں، کیا جاوید ہاشمی جیسے ایک سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدان کو یہ بیانیہ اختیار کرنا چاہئے؟ جاوید ہاشمی کو تو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، وہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایک شفاف سیاستدان کہلاتے ہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی بھی ملتان کے سیاسی مخدوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ دونوں مخدوموں سے بہتر ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ وہ تنازعات میں نہیں پڑتے۔ فوج یا عدلیہ کے خلاف ان کا بیانیہ کبھی بھی معاندانہ نہیں رہا، حتیٰ کہ جب انہیں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا، تب بھی وہ خاموشی سے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ملتان چلے آئے۔ البتہ وہ اپنی ایک کمزوری پر قابو نہ پا سکے۔ جب وہ وزیر تھے، اس کے بعد بھی ان پر کرپشن کے الزامات لگے اور وزیر اعظم بن کر بھی انہوں نے ایسے فیصلے کئے جو ان کے آج بھی گلے پڑے ہوئے ہیں۔ ملتان والے تو انہیں اس لئے اپنا محسن سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملتان کو میگا پراجیکٹس ملے اور فلائی اوورز بنے۔ ایک موقع آیا تھا کہ وہ بی کیٹیگری سے نکل کر اے کیٹیگری کے سیاستدان بن سکتے تھے۔

خاص طور پر تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے لئے ان کے پاس ایک اچھا موقع تھا، مگر وہ آصف علی زرداری کے اثر سے نہ نکل سکے۔ اب کچھ لوگ اس بات کو ان کا کریڈٹ قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑنا گوارا کیا، آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں خط نہیں لکھا۔ یہ بات کریڈٹ کیسے بن سکتی ہے؟ وہ وزیر اعظم تھے اور انہیں ملک کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔

ایک شخص سے وفاداری تو وزیر اعظم کا قد نہیں بڑھاتی۔ اس صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ آصف علی زرداری ان سے وزارت عظمیٰ واپس لے لیتے، لیکن ایک طرف تاریخ میں ان کا نام عدالت کا حکم ماننے والوں میں لکھا جاتا اور دوسری طرف ان کے سیاسی کیریئر پر نا اہلی کا داغ بھی نہ لگتا۔ لوگ محمد خان جونیجو کو آج بھی ایک اصول پسند سیاستدان کے طور پر یاد رکھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے مصلحت سے کام نہیں لیا تھا۔
جہاں تک آج کے مقتدر مخدوم شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو ان کا دکھ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب سجائے الیکشن میں گئے تھے، مگر ان میں اتنی بصیرت بھی نہیں تھی کہ اپنے حلقے میں عوام کے موڈ کا ہی اندازہ لگا سکیں، انہوں نے سلمان نعیم کو خود کپتان سے متعارف کرایا۔ کروڑوں روپے پارٹی فنڈ میں دلوائے، اپنے بیٹے کی تقریب شادی کو اس کے ذمے ڈالا، مگر اچانک یوٹرن لیتے ہوئے اسی صوبائی حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، جہاں سلمان نعیم عرصے سے مہم چلائے ہوئے تھا اور خود شاہ محمود قریشی اس کے ہمراہ جاتے تھے۔ پھر جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔

صوبائی اسمبلی کی نشست ہار کر مخدوم صاحب کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ پھر بھی یہ تاثر دیتے رہے کہ پنجاب کا عارضی وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا ،تین ماہ بعد الیکشن جیت کر مَیں وزیر اعلیٰ بنوں گا۔

سلمان نعیم کو الیکشن ٹربیونل سے نا اہل کرایا تو پھر ان کے اشارے پر حامیوں نے وزیر اعلیٰ شاہ محمود کے نعرے لگائے، مگر ہائیکورٹ نے سلمان نعیم کی اپیل منظور کر لی تو پھر جھاگ بیٹھ گئی۔ اس سارے عمل میں اس بات پر بھی خوش ہوئے کہ جہانگیر ترین نا اہل ہو گئے ہیں، اب پارٹی ان کے ہاتھوں میں ہے، جبکہ جہانگیر ترین تو سلمان نعیم کو ہی شاہ محمود قریشی کے لئے کافی سمجھتے ہیں، سو اب حالت یہ ہے کہ ملتان میں سلمان نعیم کا ڈنکا زیادہ بج رہا ہے اور مخدوم صاحب اس کے برابر آنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، کیا اسے سیاست کا عروج کیا جا سکتا ہے؟ یا وہ زوال ہے جس کو خود مخدوم شاہ محمود قریشی نے دعوت دی ہے؟

مزید :

رائے -کالم -