مسائل تعلیم: پس چہ باید کرد؟ (1)
روزنامہ پاکستان کے جن ریگولر کالم نگاروں کا میں دل سے احترام کرتا ہوں ان میں جناب علی حسن صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ ’’تماش گاہ‘‘ کے لوگو (Logo) کے تحت ان کے جو کالم شائع ہوتے ہیں ان میں سیاسیات کی وادی ء پُرخار کی راہوں کا ذکر کم کم ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو وہ کسی شخصیت یا پارٹی کی پروجیکشن نہیں ہوتی اور اس میں غیر جانبداری کی خوشبو پھیلی ہوتی ہے۔
میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ سندھ میں رہتے ہیں لیکن مقامی اور ملکی سیاست پر ان کی نگاہ غیر جانبداری کی موید ہے۔۔۔ ان کے مضامین کی دوسری خوبی موضوع کی جامعیت کا احاطہ ہے۔ ہرچند کہ کالم کی Space بہت کم ہوتی ہے لیکن پھربھی اس میں متعلقہ معلومات اور ان کا حتی المقدور بے لاگ تجزیہ قابلِ تحسین ہے۔
کل (18دسمبر 2018ء) کے اخبار میں ان کا جو کالم شائع ہوا ہے اور جس کا عنوان : ’’تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی کی ضرورت ہے‘‘ بہت اہم قومی مسائل و معاملات کی نشاندہی کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے دو روز پہلے ملک بھر کے نجی سکولوں کی فیسوں کے سلسلے میں جو تفصیلی فیصلہ سنایا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مسئلہ تعلیم اور محکمہء تعلیم میں ماضی میں کی گئی کئی غلطیوں کی طرف اشارے کئے ہیں اور آخر میں ایک ایسے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو میڈیا نے بہت کم ’’اچھالا‘‘ ہے۔
دراصل میڈیا کے اپنے مسائل ہیں اور آج کل تو ان مسائل کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جس طرح عمران خان کی سربراہی میں ایک نیا پاکستان بننے جا رہا ہے اسی طرح میڈیا کا ایک نیا منشور بھی خودبخود وضع ہو رہا ہے جو مرورِ ایام سے ایک سکہ بند روائت بن جائے گی۔
وہ پہلو جس کے ’’اچھالنے‘‘ کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں آج کل جن انتہائی اہم موضوعات پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں جو فیصلے فاضل چیف جسٹس آف پاکستان جاری کر رہے ہیں ان کو مستقبل قریب میں اگر 5،10برس تک تسلسل اور استحکام دیا گیا تو واقعی نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے ایک بنیادی اینٹ رکھ دی جائے گی۔
جیسا کہ جناب علی حسن نے لکھا ہے کہ نجی سکولوں کی فیسوں کی بے محابا یورش کے پیش نظر اس فیصلے نے معاشرے کے ایک طبقے کو ایک بڑی ریلیف کا مژدہ سنا دیا ہے۔ سکولوں کی 20فیصد فیس کم کرنے اور موسم گرما کی تعطیلات کی فیس کی واپسی کا اعلان کچھ کم اہم نہیں۔
لیکن غضب خدا کا کہ سپریم کورٹ میں فیسوں کے اس کیس کی وکالت کے لئے سکولوں کی انتظامیہ نے جن وکلاء کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں ان میں بڑے بڑے نام ہیں۔پینے کے پانی کا کیس ہو یا تجاوزات کا کیس ہو یہ نامور وکلاء کروڑوں روپے فیس لے کر اس فریق کی حمائت کرتے ہیں جو عوام کا دشمن ہے۔ بھاری فیسوں اور پینے کے پانی کی بند بوتلوں کے بارے میں آپ نے میڈیا پر جو تفصیلات سنی اور دیکھی ہیں کیا ان کو سن اور دیکھ کر کوئی بھی حاملِ خوفِ خدا شخص بھاری فیسوں اور پینے کے پانی کی ظالمانہ اور بے رحمانہ روائت کی طرفداری کرے گا؟۔۔۔ کیا کسی پاکستانی کے سینے میں سنگ دلی کا وہ اونچا گراف بھی احاطہ ء تصور میں آ سکتا ہے جو ان نجی سکولوں اور نیسلے کمپنی کے کار پردازوں جیسے اداروں نے اپنا رکھا ہے؟۔۔۔ لیکن اس سوال کا جواب اگر یہ ہو کہ ان بے محابا من مانیوں کی سپریم کورٹ میں جا کر جو شخص وکالت کرتا ہے وہ ملک کے ٹاپ کے وکلاء میں شمار ہوتا ہے۔ وہ میڈیا پر آکر سیاسی امور کی ایک ایک گرہ کو جس طرح کھولتا ہے اور جس طرح آئین کی مختلف شقوں کی تشریح کرتا ہے اس سے پاکستانی ناظرین و قارئین کی ایک بڑی تعداد واقف ہے۔
ان وکلاء میں اکثر کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے بھی ہے اور وہ اس پارٹی کے زمانہ ء اقتدار میں، وزارت کے سنگھاسن پر بھی براجمان رہے ہیں۔مزید برآں وہ شخص ایسی کتابوں کا مصنف بھی ہے جن کی پذیرائی پوری دنیا میں ہے۔ اگر ایسا ’’بے مثال شخص‘‘ ان ظالم سکولوں اور پینے کے پانی کے اجارہ داروں سے بھاری فیس لے کر ان کی وکالت کرتا ہے اور ان کی من مانیوں کو درست اور سچ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے تو اس ’’بے مثال شخص‘‘ کی اصابتِ رائے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ’’چند ٹکوں‘‘ کے عوض عوامی مفاد کو کچلنے کی حمائت میں دلائل و براہین کا انبار لگا دینا اور وہ بھی میاں ثاقب نثار جیسے چیف جسٹس کے سامنے، ہر صاحبِ دل پاکستانی کے لئے ایک ایسی چشم کشا حقیقت ہو گی جو ان وکلاء کی شخصیت کا پول کھول دیتی ہے اور ان کے بھیانک چہروں کو بے نقاب کردیتی ہے۔ آخر قائداعظم بھی ایک وکیل تھے اور علامہ اقبال بھی ایک وکیل تھے۔ آج وہ اگر زندہ ہوتے اور ان کو نجی سکولوں کے سربراہ دس پندرہ کروڑ کی رقم بطور فیس پیش کرکے ان سے اپنے حق میں عدالت میں پیش ہونے کی بات کرتے تو ان کا جواب کیا ہوتا؟۔۔۔
ہمارے یہ نامور وکلاء جن کو ہمارا میڈیا دن رات اپنی ٹی وی سکرینوں پر لا کر ان سے ’’رہنمائی‘‘ حاصل کرتا اور ہم ناظرین کو ان کے دلائل کا قائل کرنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے کیا وہ حضرات اپنے دفاع میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ : ’’ہمارا کام تو وکالت کرنا ہے ہم کیس کے حُسن و قبح کو نہیں دیکھتے، صرف اپنی ’فیس‘ کو دیکھتے ہیں‘‘۔۔۔ حضرت اقبال نے شائد جوابِ شکوہ میں ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا:
ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟
وکالت اگر ایک مقدس پیشہ ہے تو کیا اس کی تقدیس کی تعریف (Definition)یہ ہے کہ یہ عوام کا خون چوسنے والوں کی طرفداری کرنے کا ٹھیکے دار پروفیشن ہے؟
اب مجھے ذرا ’’ذاتیات‘‘ کی طرف آنے کی اجازت دیجئے۔۔۔۔میں نے 1968ء میں آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ میری کور ایجوکیشن کور تھی لیکن میں نے اپنی عسکری ملازمت کے 30,29 برسوں میں صرف دو برس ’’ایجوکیشن‘‘ میں گزارے اور وہ برن ہان سکول ایبٹ آباد میں گزرے۔ وہاں بریگیڈیر اعجاز اکبر پرنسپل تھے۔
باقی سارا تدریسی اور انتظامی عملہ سویلین تھا۔ چونکہ یہ انتظامی عملہ تعداد کے لحاظ سے بھاری بھرکم تھا اس لئے GHQ نے اس سکول میں ایک دوسرا وردی پوش بطور ایڈمنسٹریشن آفیسر تعینات کردیا۔ جون 1980ء میں، میری پوسٹنگ جب آرمی برن ہال سکول میں ہوئی تو ایڈمنسٹریشن کا کام بہت زیادہ تھا اور صبح سے شام تک میں اسی کام میں الجھا رہتا تھا۔
تمام تدریسی عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔ اقامتی سکول ہونے کے حوالے سے کئی خواتین بورڈنگ ہاؤس کے شعبے میں تعینات تھیں جوزیادہ تر اینگلو انڈین تھیں۔ 1947ء میں جب یہ سکول سری نگر سے ایبٹ آباد منتقل کیا گیا تو اس کی ولندیزی(ڈچ) انتظامیہ، ایسے فادرز پر مشتمل تھی جو اپنے ادارے کے لئے ہندوستان بھر سے بہترین انیگلو انڈین تدریسی عملہ اپنے ساتھ لائے تھے۔
انڈیا نے اس سکول کو اپنے ہاں اس لئے ’ ٹھہرنے‘ کی اجازت نہ دی کہ کانگریس کے خیال میں یہ Dutchفادرز (Fathers)، پاکستان کے حق میں اچھی رائے رکھتے تھے۔ خان عبدالقیوم خاں اس زمانے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے ان فادرز کو ایبٹ آباد میں ایک وسیع و عریض متروکہ ہوٹل الاٹ کردیا جس میں یہ سکول چلنے لگا اور آج بھی چل رہا ہے۔ جب 1971ء میں بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے ان فادرز کو پاکستان سے چلے جانے کا حکم صادر کیا اور سکول کو آرمی کی تحویل میں دے دیا گیا اور ایک بریگیڈیر صاحب کو بطور کمانڈانٹ/پرنسپل تعینات کردیا گیا۔
جب 1980ء میں میری پوسٹنگ وہاں ہوئی تو میں نیا نیا میجر پروموٹ ہوا تھا۔ میں جون 1980ء سے لے کر جون 1982ء تک برن ہال سکول میں رہا۔ سکول کا ذریعہء تدریس انگریزی تھا اور کلاس وَن سے بچوں کے ساتھ اردو میں بات چیت منع تھی۔ یہ دو سال میری فوجی ملازمت کے تین عشروں میں بڑے یادگار سال تھے۔
انہی دنوں میرا بیٹا بھی PMA میں تھا اور وہاں کئی انسٹرکٹرز صاحبان بھی دوست تھے اس لئے ان کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان کے کئی بیٹے بیٹیاں بھی برن ہال میں زیر تعلیم تھیں اس حوالے سے بھی ان سے ملاقات رہتی۔ مجھے سکول کے احاطے ہی میں ایک گھر دے دیا گیا تھاجومیری فیملی کے لئے کافی تھا۔
میں نے یہ تفصیل اس لئے لکھی ہے کہ قارئین کو بتا سکوں کہ انگلش میڈیم سکول میں میرا انتظامی اور تدریسی تجربہ بھی میرے کیرئر میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس کے بعد 28برس تک مجھے اگرچہ کسی آرمی سکول/اکیڈمی میں کام کرنے کا موقع نہ ملا لیکن آرمی میں جانے سے پہلے بھی مجھے دو سال تک گورنمنٹ ڈگری کالج رحیم یارخان اور گورنمنٹ ٹریننگ کالج ملتان میں پڑھانے کا موقع ملا۔ اور اس سے بھی پہلے ضلع بہاولنگر میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز (تنظیم) تعینات رہا۔
اس دوران، تمام ضلع کے تنظیم سکولوں کو ایڈمنسٹر کرنے کے مواقع ملے۔بہاول نگر، ہارون آباد، چشتیاں، فورٹ عباس اور منچن آباد کی تحصیلوں میں جتنے تنظیم سکول تھے ان کو وزٹ کرنے کے فرائض میرے سپرد تھے۔ یہ پوسٹنگ تدریسی نہیں، انتظامی تھی اس لئے سارے ضلع کے سکولوں کے انتظامی امور کو سمجھنے کے تجربات بھی حاصل ہوئے۔
جب آرمی میں آیا تو 1974ء میں میری پوسٹنگ آئی ایس آئی (ISI) میں ہوئی۔ تب میں کیپٹن تھا۔ لیکن GHQ نے میرا گزشتہ تعلیمی ریکارڈ دیکھتے ہوئے مجھے آرمی کی طرف سے فیڈرل سیکنڈری سکولز ایجوکیشن بورڈ میں بطور ممبر نامزد کردیا۔
اس بورڈ کے اجلاس وقفے وقفے سے ہوتے تھے اور آرمی اور سویلین سیکنڈری (میڑک) اور ہائر سیکنڈری (ایف اے) لیول کے سکولوں کے امور پر بحث و تمحیص ہوتی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے فیڈرل سطح پر ایجوکیشن معاملات کی شَدبَد بھی ہوگئی۔ پھر جی ایچ کیو نے مجھے آرمی ایجوکیشن سکولوں کے لئے بعض نصابی کتب تحریر کرنے کے لئے کہا۔
ایف اے میں ’’نصاب فارسی‘‘ اب تک ان تعلیمی کلاسوں کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ میٹرک تک مجھے اردو گرائمر اور کمپوزیشن کے لئے ایک نصابی کتاب تحریرکرنے کے لئے کہا گیا۔ یہ کتاب آج بھی نصاب کا حصہ ہے!
ممکن ہے بعض قارئین درجِ بالا سطور کو میری خودستائی پر محمول کریں لیکن یقین کیجئے میں نے ایسی کوئی ’حرکت‘ اس حوالے سے نہیں کی کہ اپنی ’تعلیم و تدریس‘ کے تجربے کی ڈینگ ماروں۔۔۔ یہ ایک قسم کی تمہید ہے۔۔۔۔ میرا ارادہ ہے کہ آئندہ چند کالموں کے ذریعے نئے پاکستان کے محکمہ ء تعلیم کے بارے میں قارئین کے سامنے اپنے تجربے کی روشنی میں چند تجاویز پیش کروں۔ میں ایک عرصے سے اپنے ہاں رائج نصابِ تعلیم کا ناقد رہا ہوں اس لئے اپنا ’دکھ‘ قارئین کو بتانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ شاید ان کا دکھ بھی یہی ہو!(جاری ہے)