بنیا دی حقوق کب ملیں گے؟
مجھے ڈا کٹر جہا نگیر تمیمی صاحب کا جملہ یاد آ گیا: ”ڈگریوں سے انسان بندہ نہیں بنتا جناب! انسان صحبت سے بنتا ہے“…… ہمارے ہر بڑے اور چھو ٹے مسئلے کا حل کسی نہ کسی طر ح تعلیم سے جڑا ہوا ہے۔ لا ہور میں دل کے ہسپتال پر وکیلوں کے حملے سے یہ بات مزید ظا ہر ہو گئی۔ مَیں اس جملے کا قا ئل نہیں ہو ں کہ پاکستان کوان پڑھ لو گوں نے نہیں، بلکہ پڑھے لکھے طبقات نے نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں کے کا رنا مے چا روں طرف بکھرے پڑے ہیں۔پڑھے لکھے لوگ، جس تعلیمی نظام اور نصاب سے ہو کر گزرتے ہیں، اس میں اخلا قی تر بیت کا کو ئی بندو بست نہیں ہے۔ اس کا لا محا لہ نتیجہ پی آئی سی پر طوفان بدتمیزی کی صورت میں ہم نے دیکھا ہے۔کا لے کو ٹ وا لے اتنے بے رحم نکلے، یہ کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔کیا مہذب دنیا میں اس کا کو ئی تصور بھی ہے؟ جی ہاں ہو سکتا ہے، مگر اس کے لئے لفظ مہذب کو ہٹا نا پڑے گا۔ لفظ مہذب سے چو نکہ ہماری کسی بھی حکو مت اور کسی بھی لیڈرکو خا ص رغبت نہیں ہے تو اس لئے ہر حکو مت اس کے خا تمے کے لئے پیش پیش ہے۔
لا ہو ر میں دل کے ہسپتال پر حملے کا صحیح پس منظر سمجھنا ہے توکچھ سوا لوں پر دوبا رہ غور کر نا ہو گا۔ پہلے تین اہم چیزوں کو ذہن میں رکھئے…… پہلی چیز یہ کہ ہم دنیا میں تعلیم میں کہاں کھڑے ہیں؟ دنیا بھر کے اندر ہمارا تعلیم میں نمبر 164 واں ہے، روانڈا سے ایک نمبر پہلے۔ ہماری تعلیم پر ریا ست کا خرچ اپنے جی ڈی پی کا 2.9 ہے، جبکہ افغا نستان 4 فیصد خر چ کر تا ہے۔کہسا روں میں جنگ و جدل کر نے وا لے افغان ہم سے بہتر سمت میں جا رہے ہیں۔ لا زمی طو ر پر یہ فکر کر نے وا لا معا ملہ ہو نا چا ہئے کہ پا ک سرزمین پر تعلیم کے اوپر افغا نستان سے بھی کم خر چ کیا جا رہا ہے۔اس لئے تعلیم کے معیارمیں پاکستان 94 ویں نمبر پر ہے۔غر بت میں اضافے کی و جہ سے تعلیم برا ئے معاش کی سوچ ہمارے ہاں اپنے عروج پر ہے۔ تعلیم پر ریا ستی سرمایہ کاری میں کمی سے پروفیشنل اور تربیت یافتہ شہری بنانا ہمارے تعلیمی نظام کے بس کی بات نہیں ہے۔ آئین کا آ رٹیکل 25-A تعلیم کے بنیا دی حق کی ضما نت دیتا ہے اور اس پر سر ما یہ کا ری کو ذہن میں رکھیں تو اندا زہ ہو جاتا ہے کہ ہماری تر جیح کیا ہے اور خواہشات کیا ہیں؟ اس لئے ہسپتال پر ہونے والے حملے کی ایک وجہ مجھے تو سمجھ آ گئی ہے۔
دوسرا اہم سوال شعبہ صحت سے جڑا ہے، اس میں ہم با قی دنیا کے مقا بلے میں کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 2.6 شعبہ صحت پر خرچ کر رہا ہے۔ ایک شہری کے علاج معا لجے پر خر چ کر نے کی رینکنگ میں پاکستان129 ویں نمبر پر ہے۔ ایک ہزار لو گوں میں 0.6 افراد کو ہسپتال میں بیڈ کی سہو لت ہے۔ مطلب صرف(60) افراد کو ہسپتال میں بیڈ مل سکتا ہے۔اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ ہسپتالوں میں دوائی کیوں میسر نہیں، ٹیسٹ کیوں باہر سے کرانے پڑتے ہیں، ڈاکٹروں کے کمروں کے با ہر مریضوں کی لمبی لمبی لا ئنیں کیوں لگی ہو تی ہیں۔ ہسپتال جا نے سے پہلے ایک سفارشی فون کیوں کرا نا پڑ تا ہے؟ ڈاکٹروں کے رویے مریضوں سے تلخ کیوں ہو تے ہیں؟ مسلسل چھتیس چھتیس گھنٹے کی ڈیو ٹی کے دوران ایک ڈا کٹر سے ہم کس اخلا قی رویے کی توقع رکھتے ہیں؟ مریضوں کا بے تحا شہ لوڈ اورڈاکٹروں کی تعداد میں کمی،یہ ہے اصل بنیا د ہسپتا لوں میں آ ئے روز جھگڑوں اور ہڑتالوں کی۔ایسے ماحول میں جب ہم لائن میں نہیں لگتے، یا ”آپ مجھے نہیں جانتے؟“ کے پیرا ئے میں تعارف کراتے ہیں تو پھر وہی ہو تا ہے جو ایک وکیل کے ساتھ پی آ ئی سی میں ہوا ہے۔ تیسرا ہم سوال قا نون کی حکمرا نی میں پاکستان کی رینکنگ سے متعلق ہے؟ پا کستان دنیا کے ان آ خری دس مما لک میں شامل ہے، جہاں قا نون کا حال نہا یت پتلا ہے۔
پا کستان 113 مما لک میں 103ویں نمبر پر ہے۔قا نون کے احترام کی اس پو زیشن کو دیکھ کرجواب مل گیا ہے کہ وکلاء نے کیسے ہسپتال پر اجتما عی حملے کا سو چا ہو گا۔پی آ ئی سی پر حملے کی پلا ننگ کیسے ہو ئی؟ وکیلوں کے اس حملے کے بعد بار ایسو سی ایشنزکی ہڑ تا لوں کے رویے کے سا منے بے شر می اور ڈھٹا ئی کے لفظ چھو ٹے پڑ گئے ہیں۔ ایسے عمل کا جواز پیش کر نا بھی ”بد تراز گناہ“ کے مصداق ہے۔ ہر شہر میں جب بھی با ر کا الیکشن ہو تا ہے،اس طر ح کا منظم کارنامہ وکیل ضرور سر انجام دیتے ہیں اور تمام وکیل رہنما ووٹ کے چکر میں ان کی پشت پنا ہی بھی کر تے ہیں۔ایک ٹریفک اہلکار سے پو چھا، سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ جوا ب ملامال روڈ پر وکلاء کو ہیلمٹ پہنا نا اور ان کا چا لان کرنا۔یہ جرات اگر کوئی اہلکار کر بھی لے تو پھر پو ری بار مال روڈ کا رخ کر تی ہے۔اب ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ اس حملے کو رو کنے کے لئے پو لیس حر کت میں کیوں نہ آ ئی او ر انہیں یہ خیال کیوں نہ آ یا کہ آ ئین کا آ رٹیکل 9 ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنا تا ہے۔
یہ صو رت حال وا ضح طور پر بتا رہی ہے کہ ملک میں ادارے کتنا کام کر رہے ہیں؟ گورننس کا یہ عا لم ہے کہ وزیر اعظم نے کچھ نہ کر نے کوبہتر حکمت عملی کہا ہے۔ مجھے خوف آ رہا ہے کہ ہرمعا ملے میں کچھ نہ کر نا کیسے بہتر حکمت عملی ہو سکتا ہے؟ عمران خان پر بھی سارا قصور دھر نا نا حق ہو گا، یہ ہمارا مشتر کہ رویہ بن چکا ہے۔ غالب گمان یہی ہے یہ معا ملہ بھی ایک اور نوٹس کی نذر ہو جا ئے گا۔سا نحہ سا ہیوال، اس پہلے سا نحہ ما ڈل ٹاؤن اوراس سے پہلے سا نحہ خروٹ آ باد کا کیا بنا؟ سا نحہ بلدیہ فیکٹری کا کیا بنا ہے؟258 شہری کیمیکل چھڑک کر زندہ جلا دیئے گئے، مگر بھتہ مانگنے وا لے نفیس لوگ حکو مت کا حصہ بن گئے۔ احمد پو ر شر قیہ میں ٹینکر کی آ گ میں درجنوں لوگ جل گئے،کیا ہوا؟ حکو مت ٹینکر ما فیا کے آ گے گھٹنے ٹیک گئی۔ قصور میں بچوں سے جنسی تشدد ایک مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے، اس مسئلے پر قا نون نے اپنا راستہ کیوں نہیں بنا یا؟مجھے بیچا رہ صلاح الدین یاد آ رہا ہے،پو لیس نے چپکے سے ما ر دیااورخونِ نا حق سسٹم کے ساتھ مک مکا کی نذر ہو گیا۔ایک سوال پو چھوں ما رو گے تو نہیں؟ …… بھلے آ پ ریاست مدینہ کے خواب دیکھئے، مگر آئین کے آ رٹیکل 8- سے آرٹیکل28- تک کی ضما نتیں ریا ست نے اپنے شہریوں کے حقوق کے لئے متعین کی ہیں،
ان پر عمل درآمد کب شروع ہو گا؟ عام شہری اور ریاست کو ایک نظر نہ آ نے وا لے رشتے نے آ پس میں جو ڑ رکھا ہے، اسے ہم آ ئین کہتے ہیں۔یہ تما م شقیں ریا ست اور اس کے شہری کے درمیان راز و نیاز کے وعدے ہیں، جن پر عمل ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ کے زمرے میں آ تا ہے۔یاد رکھئے اس وعدے پر عمل نہ ہو نے سے ریا ست اور اس کے شہریوں کے تعلق کی بنیا د ایک بار کمزور پڑ گئی تھی تو بنگلہ دیش کی تخلیق ہو ئی تھی، ریا ست کا بنیا دی یو نٹ ایک فرد ہے، اگر یہ فرد قوم کے مقدر کا ستارہ بننے میں کمزور پڑ جا ئے تو ریا ست کی بلند و بالا عمارت دھڑام سے گر جا تی ہے۔ ریاست اور اداروں کی تباہی سے بچنا ہے توآئین میں دیئے گئے بنیا دی حقوق کا تحفظ لازم ہو چکا ہے، وگر نہ اب یہاں سے خا نہ جنگی محض ایک قدم کے فا صلے پر ہے۔