پرویز مشرف کوسزا لیکن عدالتوں سے باہر اس پرعملدرآمد کیسے رک سکتا ہے؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

پرویز مشرف کوسزا لیکن عدالتوں سے باہر اس پرعملدرآمد کیسے رک سکتا ہے؟ وہ بات ...
پرویز مشرف کوسزا لیکن عدالتوں سے باہر اس پرعملدرآمد کیسے رک سکتا ہے؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک)خصوصی عدالت  سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سناچکی ہے اور  قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر کسی عدالت کا فیصلہ اپنے حتمی مراحل طے کر جائے تو پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسے کالعدم قرار دے دے، یا درہے کہ پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی ہے جس پر کوئی حلقوں کی جانب سے بے چینی اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔ 

روزنامہ دنیا کے مطابق  آئینی امور اور فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل امجد شاہ نے کہا کہ آئین شکنی کے مقدمے میں پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے پر 2016 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا، اس لیے ان حالات میں ایک عام ملزم اور پرویز مشرف میں بڑا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشتہاری قرار دینے اور بارہا پیش ہونے کے عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ سابق فوجی صدر کا حق دفاع ختم کر چکی تھی۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مقررہ 30 دنوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرتے تو پھر خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہی حتمی سمجھا جائے گا۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے وفاقی حکومت جب چاہتی اس مقدمے کو واپس لے سکتی تھی کیونکہ قانون کے مطابق استغاثہ جب چاہے اپنی درخواست واپس لے سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ بھی پرویز مشرف کو ملنے والی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے اور اٹارنی جنرل حکومت کو یہ رائے دیں کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو وفاق اس پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ جب وہ اٹارنی جنرل تھے تو اس وقت اُنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہونے دی تھی۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل فیصل چودھری نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے تو پھر ان کی عدم موجودگی میں خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہیں ہو سکتی۔ نیب کے مقدمات میں کسی ملزم کی عدم موجودگی میں فیصلے سنائے جاتے تھے لیکن اس اقدام کو بھی سپریم کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل انور منصور نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے میں تمام آئینی ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ اپیل کی صورت میں سابق صدر کا عدالت میں دفاع کریں گے۔

یاد رہے کہ خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی ہے جبکہ وہ آخری اطلاعات کے مطابق بیرون ملک زیرعلاج ہیں، منگل کے روز جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف دفاع کا حق کھو چکے،تاہم 342 کے بیان کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لینگے۔یہ عدالتی فیصلہ تحریری طورپر آج جاری ہونے کا امکان ہے جبکہ مسلح افواج سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا جبکہ سوشل میڈیا صارفین بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ 

ادھر  ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سابق صدر پرویز مشرف کی سزا پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن کسی کو بھی سزائے موت دینا درست نہیں ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزائے موت ظالمانہ، سغیر انسانی اور ہتک آمیز سزا ہے۔ سزائے موت کا مطلب انتقام ہے نہ کہ انصاف۔ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر وڑائچ کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی حکومت میں رہنے والے دیگر افراد کو بھی اپنے دور میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواب دینا ہوگا۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں لیکن سزائے موت ایک ظالمانہ فیصلہ ہے جس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔