وہ واحد قانون جس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، پرویز مشرف کے مقدمے سے جڑی وہ اہم باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں

وہ واحد قانون جس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، پرویز مشرف کے مقدمے سے جڑی وہ اہم ...
وہ واحد قانون جس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، پرویز مشرف کے مقدمے سے جڑی وہ اہم باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (تجزیہ:سعید چودھری)جنرل (ر) پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی طرف سے سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر وہی سوالات سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں جو 2013ء میں اس وقت اٹھائے گئے تھے جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔

آج بھی سوال اٹھایا جارہاہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ان کے12اکتوبر1999ء کے اقدام کی بنیا دپر مقدمہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ان کے شریک ملزموں کو کیوں کٹہرے میں نہیں لایاگیا؟اب ایک نیا اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو شفاف ٹرائل اورضابطہ فوجداری کے سیکشن 342کے تحت خصوصی عدالت میں اپنی صفائی میں بیان ریکارڈ کروانے کا موقع نہیں دیاگیا،یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ کیا حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا ختم کرنے کے لئے کچھ کرسکتی ہے؟2013ء میں حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف ان کے 3نومبر2007ء کے اقدام پر سنگین غداری کا مقدمہ تیار کیا،پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو ایک عبوری آئینی فرمان(پی -سی -او)جاری کرکے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے43جج فارغ کردئیے تھے جبکہ12اکتوبر 1999ء کو میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت برطرف کرکے آمریت مسلط کی تھی اور آئین کو طاقت کے ذریعے سبوتاژ کیا تھا،

کیا پرویز مشرف کے12اکتوبر1999ء کے اقدام پر آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہوسکتی تھی؟12اکتوبر 1999ء کے فوجی اقدام کے حوالے سے دو اہم قانونی نکات ایسے ہیں جو پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی راہ میں حائل تھے،ایک یہ کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے12اکتوبر1999ء کے فوجی اقدام کو جائز قرار دیا تھا،اس حوالے سے سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے مارشل لاء کو جواز فراہم کرکے خود کو بھی آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا سزاوار بنالیا تھا،اس سلسلے میں 18ویں آئینی ترمیم سے قبل آئین خاموش تھا۔

2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 6میں تبدیلی کی گئی کہ کوئی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس،سنگین غداری کے اقدام کو جائز قرار نہیں دے سکتی،18ویں ترمیم میں پہلی مرتبہ یہ نکتہ بھی شامل کیاگیا کہ طاقت کے ذریعے دستور توڑنے یا توڑنے کی کوشش کرنے والے کا ساتھ دینا بھی سنگین غداری ہے،اس کے لئے آئین میں COLLABORATINGکا لفظ استعمال ہوا ہے،

یوں کسی آمر کی حکومت میں شامل ہونااور دیگر طریقوں سے اس کا ساتھ مل کر کام کرنا بھی آرٹیکل 6کے تحت قابلِ تعزیر جرم ہے،سنگین غداری کے جرم میں سزادینے کا قانون مجریہ1973ء یہ واضح کرتا ہے کہ اس کا اطلاق1956سے ہوگا،یہ واحد نافذ العمل قانون ہے جس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا ہے۔ اس بات پربحث ہوتی رہی ہے کہ 18ویں ترمیم سے قبل فوجی آمر کا ساتھ دینے والے ججز بھی آرٹیکل 6 کے شکنجہ میں آئیں گے یا نہیں؟اور یہ کہ پرویز مشرف کے خلاف 12اکتوبر1999ء کے اقدام پر کارروائی کیوں نہیں ہوسکتی؟ جنرل پرویز مشرف نے21اگست2002ء کو لیگل فریم ورک آرڈر جاری کرکے اپنے اقدامات کو تحفظ دیا۔31دسمبر2003ء کو چند ایک معمولی ترامیم کے ساتھ پارلیمنٹ نے لیگل فریم ورک آرڈر کی توثیق کردی اور 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف کے12اکتوبر1999ء کے مارشل لاء سمیت تمام اقدامات اور جاری کردہ قوانین کو تحفظ دے دیا،

پارلیمنٹ کی توثیق اور آئینی ترمیم کے باعث پرویز مشرف کے مارشل لاء1999ء اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی جبکہ پرویز مشرف کے3نومبر 2007ء کے اقدام کی تو عدلیہ نے توثیق نہیں کی،پارلیمنٹ نے بھی اس اقدام پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی بلکہ3نومبر2007ء کو موجود عدلیہ نے تو3نومبر2007ء کے پی سی او کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کردیا تھا، یہ حکم امتناعی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے جاری کیا تھا،ان حالات میں پرویز مشرف اوران کا ساتھ دینے والوں کے خلاف 3نومبر2007ء کے اقدام پر ہی کارروائی ہوسکتی تھی،ا ب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ جنرل (ر) پرویزمشرف کے 3نومبر2007ء کے اقدام میں شریک لوگوں کے خلاف بھی سنگین غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چلایاگیا؟

اس سلسلے میں عرض ہے کہ3نومبر 2007ء کے اقدام کے حوالے سے پرویز مشرف نے قوم سے جو خطاب فرمایا تھا اس میں انہوں نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ ”مَیں نے پی سی او جاری کرنے کافیصلہ کیا ہے“انہوں نے فوج اور دیگر حلقوں سے مشوروں کی بات تو کی لیکن پی سی او جاری کرنے کو اپنا فیصلہ قراردیا تھا،3نومبر 2007ء کے اقدام کے حوالے سے سپریم کورٹ31 جولائی2009ء کو فیصلہ دے چکی ہے کہ یہ فردِ واحد پرویز مشرف کا اقدام تھا۔سنگین غداری کی سزا کے قانون مجریہ 1973کے سیکشن 3میں واضح کیا گیا ہے کہ کوئی عدالت اس وقت تک آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کسی شخص کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں کارروائی نہیں کرسکتی جب تک کہ وفاقی حکومت یا اس کا مجاز نمائندہ تحریری طورپر مقدمہ دائر نہ کرے۔

اس کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 6کے تحت سزا دلوانا ہر شہری کا نہیں بلکہ صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار اور استحقاق ہے۔اب یہ حکومت نے طے کرنا ہے کہ اس کے نزدیک سنگین غداری کا مرتکب کون شخص ہوا ہے۔جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکاہے کہ اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس (جسے عرف عام میں پی سی او کیس بھی کہا جاتا ہے)کے فیصلے میں 31جولائی 2009کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو 3نومبر 2007کے اقدام کا واحد ملزم قرار دیا گیا تھا۔2014ء میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے خصوصی عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس میں 3نومبر2007ء کو موجود تمام کورکمانڈرز اورصوبائی گورنروں سمیت 600افراد کو بھی شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی،مسٹر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی عدالت نے اس درخواست پر نومبر2014ء میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز،سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس پاکستان عبدالحمید ڈوگر کو پرویز مشرف کے ساتھ شریک ملزموں کے طورپر شامل تفتیش کیا جائے اور 15روز میں ترمیمی استغاثہ دائر کیا جائے،پرویز مشرف کی کوشش کی تھی کہ 3نومبر 2007ء کو موجود تمام کور کمانڈرز اور گورنروں سمیت 600افراد کو بھی شریک ملزم بنایا جائے تاکہ ایک ایسا پنڈورا بکس کھل جائے جسے عدالت بند نہ کرسکے۔

علاوہ ازیں اس درخواست کا ایک مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ سابق اعلی ٰ فوجی افسروں پر غداری کا مقدمہ چلانے سے جو شدید رد عمل سامنے آتا اس کے نتیجے میں پرویز مشرف کی خلاصی کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے۔سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے خصوصی عدالت کے اس حکم کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیااور موقف اختیار کیا کہ بطور چیف جسٹس ان کا حکومتی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا،9فروری 2015ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کردی جس پر انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،2016ء میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف واحد ملزم کے طور پر بلاتاخیر ٹرائل جاری رکھنے کی ہدایت کی،جہاں تک جنرل (ر) پرویز مشرف کا ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342کے تحت خصوصی عدالت میں بیان ریکارڈ نہ کرنے کا معاملہ ہے،

سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر یکم اپریل2019ء کوحکم جاری کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اگر خصوصی عدالت کے سامنے سرنڈرکردیتے ہیں تو سیکشن 342کے تحت ان کا بیان قلمبند کیا جائے تاہم اگر ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوتاتو خصوصی عدالت ان کی غیر حاضری میں ٹرائل جاری رکھے۔یہ کیسی دلچسپ بات ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بیرسٹرفروغ نسیم کی وساطت سے 2014ء میں اپنے ساتھ شریک ملزموں کے خلاف کارروائی کے لئے خصوصی عدالت میں جو درخواست دائر کی تھی،وہی درخواست اب 17دسمبر 2019ء کو حکومت کی طرف سے خصوصی عدالت میں پیش کی گئی اور کہا گیا کہ حکومت سابق وزیراعظم شوکت عزیز،سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس پاکستان عبدالحمید ڈوگر کو بھی اس کیس میں ملزم نامزد کرنا چاہتی ہے تاہم یہ درخواست مسترد کردی گئی،تب فروغ نسیم جنرل(ر) پرویز مشرف کے وکیل تھے اور اب وہ وفاقی وزیر قانون ہیں۔

حکومتی وزراء اوراٹارنی جنرل پاکستان کی طرف سے خصوصی عدالت کے فیصلے پر جس طرح تنقید کی جارہی ہے،اس سے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس کیس میں سزا دیئے جانے کی مخالف ہے،جب چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کااستغاثہ واپس لیا جاسکتاہے؟تو حکومت نے تب اس کا واضح جواب کیوں نہیں دیا،

اگر خصوصی عدالت کے فیصلے میں سقم ہیں تواس کا فائدہ لازمی طور پر ملزم کو پہنچے گا،ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں جتنی خامیاں ہوں وہ اپیل میں ملزم کی مدد کرتی ہیں، جنرل (ر) پرویز مشرف کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کاحق ہے،"دی کریمینل لاء امینڈمنٹ (سپیشل کورٹ)ایکٹ مجریہ 1976ء "کے سیکشن 12(3)کے مطابق خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 30دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوسکتی ہے،یہ اپیل بطور حق ہے جسے دائر کرنے کے لئے ملزم کا سپریم کورٹ میں پیش ہونا ضروری نہیں،جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے وکیل کے ذریعے بھی یہ اپیل دائر کرسکتے ہیں تاہم جہاں تک کسی ریلیف کا تعلق ہے اس کے لئے سپریم کورٹ ان کے حاضر ہونے کی شرط عائد کرسکتی ہے تاہم یہ لازمی قانونی تقاضا نہیں ہے۔

علاوہ ازیں حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا ختم کرنے کی بھی مجاز ہے،آئین کے آرٹیکل45کے تحت صدر کسی عدالت کی طرف سے دی گئی سزاکو معاف کرنے،اسے ملتوی کرنے،اسے کچھ عرصہ کے لئے روکنے،اس میں کمی کرنے،اسے معطل کرنے یا تبدیل کرنے کا اختیاررکھتے ہیں،وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا کے خاتمہ کے لئے صدر کو ایڈوائس بھیجی جاسکتی ہے۔