کیا پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا؟

کیا پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا؟
کیا پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موسم جیسے سرد ہو تا جا رہا ہے ویسے سیاسی صورت حال گرم ہو تی جا رہی ہے۔ مینار پاکستان لاہور میں ”پی ڈی ایم“ کے جلسے کو ایسے سیاسی تجز یہ نگار بھی کا میاب قرار نہیں دے رہے جن کو قطعی طور پر عمران خان یا پی ٹی آئی کا حامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔اگر مینار پا کستان پر جلسوں کی تاریخ دیکھی جا ئے تو معلوم ہو گا کہ ”مینار پاکستان“ میں کامیاب یا بڑے جلسے ہی سیاسی کا میابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ جب پی ٹی آئی نے اکتوبر 2011ء کو مینار پا کستان لا ہور میں بڑا جلسہ کیا تو اسے عمران خان کی اس وقت تک کی سیاسی اننگز کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ورنہ 1996ء سے 2011ء تک پی ٹی آئی کا شمار ایسی سیاسی جما عتوں میں کیا جا تا تھا جن کی  انتخابی حیثیت تھی ا ور نہ  ہی ”سٹریٹ پا ور“مگر لاہور کے اس کامیاب جلسے کے با وجود بھی ”پی ٹی آئی“ 2013کے انتخابات میں لاہور سے قومی اسمبلی کی کل 13 نشستوں میں سے صرف 1نشست ہی حاصل کر سکی تھی۔اسی طرح پی ٹی آئی نے ستمبر 2014ء میں بھی مینار پاکستان لاہور میں جلسہ کیا تھا مگر اس کے با وجود لاہور میں بڑی انتخابی طا قت نہیں بن پا ئی اور اسے 2018ء کے انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی کل 14 نشستوں میں سے 4 نشستیں ہی ملیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں مارچ 1990ء میں مینا ر پاکستان لا ہور میں بڑا جلسہ کیا مگر اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں پی پی پی کو لاہور سمیت پنجاب سے شکست ہوئی۔ طاہر القادری نے دسمبر2012ء میں مینا ر پا کستان میں جلسہ کر کے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ جنوری 2013ء میں نظام کی تبدیلی کے لئے اسلام آباد تک لانگ ما رچ کریں گے،انہوں نے ایسا کیا بھی مگر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔

یہ مثالیں دینے کا مقصد  یہ ہے کہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ سیاسی کامیابی کے لئے مینار پاکستان کا جلسہ کوئی ضمانت نہیں ہوتا۔حالیہ سیاسی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ کسی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے جلسے نہیں، بلکہ ایجی ٹیشن، جلوس اور ہڑتالوں کا راستہ اختیار کیا زیادہ کامیاب ٹھہرا۔1990ء کے بعد کی سیاست کو دیکھیں۔ نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لئے بے نظیر بھٹو نے ایجی ٹیشن اور لانگ ما رچ کا سہارا لیا۔ بے نظیر نے 1992ء اور 1993ء میں نواز حکومت کے خلاف بھرپور ایجی ٹیشن کی۔ غلام اسحق خان اور نواز شریف کے اختلافات کا بھر پور فا ئدہ اٹھایا اور 1993ء کے انتخا بات میں وزیراعظم بن گئیں۔ اسی طرح نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ان کے خلاف ”تحریک نجات“ چلائی جس میں خاص طور پر لاہور اور پنجاب کے شہروں میں پی پی پی کے خلاف ہڑتالوں اور ایجی ٹیشن کا را ستہ اختیار کیا گیا اور نومبر1996ء میں بے نظیر کی حکومت کو فاروق لغاری کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بے نظیر، حکومت کے خلاف احتجاجی ماحول نہ بنا سکیں اور انہوں نے خود جلا وطنی اختیار کر لی۔ 12اکتوبر1999ء کو اقتدار کی باگ ڈور مشرف کے ہاتھ میں آئی تو ان کو کلثوم نواز کی تحریک کی صورت میں ایک طرح کا سیاسی چیلنج ضرور ملا، مگر دسمبر 2000ء میں نواز شریف اور ان کے خاندان کی سعودی عرب، جلا وطنی کے بعد مشرف کے لئے سیاسی اعتبار سے سکون ہی سکون تھا۔

تاہم مارچ 2007ء میں وکلا تحریک کے دوران جب وکلا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلوسوں اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا گیا تو چند ما ہ کے اندر ہی مشرف سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ کمزور ہو گئے۔ اسی طرح جب 2009ء میں، اس وقت کے صدر آصف علی زرداری ججوں کو بحال کرنے کیلئے رضا مند نہیں ہو رہے تھے تو نواز شریف نے احتجاج اور لانگ مارچ کا راستہ اختیار کر کے پی پی حکومت کو جج بحال کرنے پر مجبور کر دیا۔اس کے بعد پاکستان میں جو بڑا سیاسی احتجاج دیکھنے میں آیا وہ”پی ٹی آئی“ اور عوامی تحریک کا اسلام آباد میں دھرنا تھا، مگر چونکہ ان دونوں جماعتوں کو کسی اور جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی اس لئے یہ دھرنے ناکام رہے۔ہماری تاریخ یہ ہے کہ حکومتیں کبھی جلسوں سے نہیں بلکہ جلوسوں، ایجی ٹیشن اور لانگ مارچ کے ذریعے ختم کی گئی ہیں۔ یہاں پر بنیادی سوال یہی ہے کہ اب”پی ڈی ایم“ بھی جلسوں کا راستہ چھوڑ کر لانگ مارچ اور ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہے۔

تو کیا ”پی ڈی ایم“ کو کامیابی مل پا ئے گی؟ اس سوال کا جواب بھی ہما ری سیاسی تا ریخ میں ہی موجود ہے کہ پا کستان میں جب بھی کسی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے احتجاج کا راستہ اختیا ر کیا جا تا ہے تو اس کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ یہ احتجاج اس قدر مو ثر ہو کہ مقتدر حلقے بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ اب   ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا ”پی ڈی ایم“ کے لانگ ما رچ میں واقعی ہی اس قدر دم ہو گا کہ مقتدر حلقے کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں، مگر اس کے لئے ہمیں فروری تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔

مزید :

رائے -کالم -