راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی     (4)

 راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی     (4)
 راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی     (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آپ اِسے ڈرامہ بازی کہہ لیں یا بر صغیر میں انگریز حکمرانوں کی قابلِ تقلید روایت، مگر پاکستان بننے سے پہلے اعلی عدالتوں کے اکثر جج منصب سنبھالنے پر بعض عجیب و غریب حرکتیں کِیا کرتے تھے۔ جیسے مقامی اخباروں کا مطالعہ ترک کر دیتے یا اگر کسی کلب کے ممبر تھے تو رکنیت معطل کرا دی جاتی۔ شادی بیاہ کی تقریبات سے اجتناب بھی اِسی احتیاط کا حصہ تھا۔ حکمت یہ تھی کہ انصاف کی کرسی پہ بیٹھنے والوں پہ ممکنہ غیر عدالتی عوامل کم سے کم اثرانداز ہوں۔ انتظامی کار پردازوں کا معاملہ مختلف ہے۔ اِسی لئے منفرد مزاح نگار کرنل محمد خاں نے ’بجنگ آمد‘ میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوجی کمیشن ملنے پر اپنی خفیہ پولیس رپورٹ کا ذکر مزے لے کر کیا ہے۔ یہی کہ وہ خود کسی فوجداری مقدمے میں کبھی مطلوب نہیں تھے لیکن پولیس والے بھی آخر انسان ہوتے ہیں، لہذا مصنف نے از رہِ احتیاط اُن کی بشریت کا تقاضا بھی پورا کر دیا۔
 مورخ کے برعکس کالم نگار کی بشریت کے کچھ اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ جیسے مَیں آجکل جی سی (یو) کے تاریخ نگار پروفیسر خالد مسعود کی انگلی تھامے اُن کے ساتھ قدم بقدم چل تو رہا ہوں مگر قابل اجمیری والی بات کہ
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے 
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
تاریخ استدلا ل کی شاہراہ پر زمانی ترتیب سے چلتی ہے۔ یوں تاریخ نگاری اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے یہ منزل تک پہنچنے کی جد و جہد ہوئی۔ ایم۔ اے خان کا بطور پرنسپل دورانیہ اتنا کم کیوں رہا؟ دمِِ رخصت پروفیسر اشفاق علی خاں کے بارے میں گورنمنٹ کالج گزٹ اور مجلہ ’راوی‘ نے کیا لکھا؟ ڈاکٹر اجمل کی نفسیاتی مہارت اور پروفیسر صدیق کلیم کی ادبی اٹھان سے ادارے کی تمدنی زندگی کو کس حد تک فائدہ پہنچا؟ پروفیسر فضا الرحمان کی سربراہی میں تعلیم و تحقیق کے کون کون سے معرکے لڑے گئے؟ کھیل میں کتنی ٹرافیاں جیتیں، کتنے میچ ہارے؟ پھر اعداد و شمار سے مزین اور تدریسی عملے کی ’آنیوں جانیوں‘ سے لدے پھندے تقرر و ترقی کے احکامات اور غیر نصابی اشغال کے لئے انتظامات۔ مورخ کے سر پہ حقیقت بیانی، غیر جانبداری اور دستاویزی شہادتوں کا یہ بھاری بھرکم بوجھ اُسے خطِ مستقیم سے بھٹکنے کی عیاشی فراہم نہیں کرتا۔
 کالم نویس کو حاصل سہولتیں اُور ہی نوعیت کی ہیں۔ ایک تو پنجابی محاورے کے مطابق ’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں‘۔ دوسرے عقل کی شرط بالفرضِ محال عائد کر بھی دیں تو کالم ہے ہی ’اوپ ایڈ‘ گویا ذاتی رائے پہ مبنی اداریہ۔ جیسے لکھنے والا قانونی، اخلاقی اور انسانی ضابطوں کو ایک طرف ہٹا کر زور زور سے کہہ رہا ہو ”میرا کالم، میری مرضی۔“ چنانچہ خواہش کی حد تک تو مجھے بھی ’تیزگام‘ کی رفتار سے چلنا چاہیے۔ لیکن عملی طور پہ ہوں مَیں کسی برانچ لائن کی پیسنجر ٹرین جس نے اپنی سُست روی کا شعر ی جواز یہ کہہ کر تلاش کر لیا ہے:
کہِیں چراغ، کہیِں پتیّاں، کہِیں چہرے
چلا تو رہروِ دل بار بار ٹھہرے گا 
مورخ نے پروفیسر اشفاق علی خاں کے تعارف میں دو بنیادی نکتے بیان کئے ہیں۔ اول یہ کہ قرار دادِ پاکستان سے تین سال پہلے ایم اے انگلش فرسٹ ڈویژن میں کِیا تھا جو خود ہماری طالب علمی تک منفرد اعزاز سمجھا گیا۔ پہلی کتاب ’پاکستان، اے نیشن‘ 1941 ء میں شائع ہوئی اور ’الحمزہ‘ کے نام سے لاتعداد اخباری مضامین بعد ازاں۔ پھر یہ کہ آپ نے فارن سروس میں شامل ہونے کی سرکاری پیشکش ٹھُکرا دی تھی۔
 آج ہمارے معاشرے میں یہ تاریخی حقیقتیں انہونی سی باتیں لگیں گی۔ پھر بھی مورخ کے۔ایم صدیقی کی انگلی تھام کر ماضی کی سیر میں گُم یہ کالم نویس جگہ جگہ تاریخی حقائق کا ہاتھ جھٹک کر من پسند سچائیوں کا میلہ دیکھنے نکل جاتا ہے۔ قریبی دوست سوچیں گے کہ آج یہ ذاتی حوالہ میری بھتیجی سے پروفیسر اشفاق علی کے پوتے مصطفی اورک زئی کا ر شتہء ازدواج ہے جس کی ابتدائی رسم میرے گھر میں ادا ہوئی۔ تب تک ہم سے کوئی تین سو گز دُور مکیں سے خالی اُس مکان کی تختی ہٹ چکی تھی جہاں ’اشفاق علی خاں‘ کے جلی حروف اردو میں جگمگا یا کرتے۔ خیر، میرے سامنے فی الوقت ایک اور واقعہ ہے جب اشفاق علی خاں کے جی سی (یو) دو برس پہلے گورنمنٹ ڈگری کالج راولپنڈی کے پرنسپل تھے۔ تیرہ سالہ طالب علم یہ تو سُن چکا تھا کہ ’الحمزہ‘ صاحب در اصل ہیں کون۔ پر نام کا اثر ہوتا کیا ہے، یہ اُسی سہ پہر پتا چلا۔
 اُن دنوں واہ کینٹ میں سی۔ایم بائی اسکول یا موجودہ ایف۔ جی ماڈل اسکول کا درجہ بڑھا کر پہلے تو وہِیں ایف ایس سی کلاس کا اجرا ہوا اور پھر گراؤنڈ کے پار نئی عمارت میں باقاعدہ سی۔بی انٹرمیڈیٹ سائنس کالج قائم کر دیا گیا۔ پروفیسر اشفاق علی خان اِسی کالج کے اولین جلسہء تقسیم ِانعامات کے لئے تشریف لائے تھے۔ مقامی پرنسپل صاحب کا تقرر سکوارڈن لیڈر ایم۔ ایچ چودھری جیسے شریف النفس اور وضع دار بزرگ کی باضابطہ تعیناتی سے پہلے محض عبوری بنیاد پہ تھا۔ یوں تو وہ ایف۔سی کالج لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں میتھ کی ماسٹرز اور چند سال بعد فزکس کی ایم۔ایس سی ڈگری کے حامل ہوئے، مگر مسئلہ ایک ہی تھا کہ ”بھرا جی، انگریزی نئیں آؤندی۔“ اب آگے چلتے ہیں۔ صورتحال ملاحظہ ہو۔
 پروفیسر اشفاق علی خاں کے زیر ِ صدارت معززینِ شہر کے سامنے ”انگریزی نئیں آؤندی“ والے پرنسپل صاحب تعلیمی و غیرنصابی سرگرمیوں کی طبع شدہ سالانہ رپورٹ پڑھ کر سُنا رہے ہیں۔ آزمائش کے اِس مرحلے پہ مہمانِ خصوصی کی حالت اُن بڑے میاں کی سی ہے جن کی آنکھوں میں نوجوان گلوکارہ کا یہ نغمہ سُن کر آنسو آ گئے تھے کہ ”پنچھی جا، پیچھے رہا بچپن مِرا“۔ گیت ختم ہوتے ہی خاتون نے پوچھا تھا: ”سر، کیا آپ کو بھی اپنا بچپن یاد آ گیا؟“ ”نہیں بیٹا، مَیں میوزک ڈائریکٹر ہوں۔“ رپورٹ مکمل ہوتے ہی ہمارے میوزک ڈائریکٹر اشفاق علی خاں نے کہا: ”اب انگریز وں کا عہد نہیں۔ ہم ایک آزاد مملکت کے باوقار شہری ہیں۔ اِس لئے کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ رپورٹ انگلش کے بجائے اردو میں ہوتی۔ اِس پہ پرنسپل صاحب نے ہنگامی طور پر مائیک پہ آ کر تقریب کی باقی کارروائی قومی زبان میں شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
 پروفیسر اشفاق علی خاں کو تقسیمِ انعامات سے کچھ ہی پہلے اپنی تجویز واپس لے کر یہ کیوں کہنا پڑا کہ براہِ کرم جلسے کی کارروائی انگریزی ہی میں جاری رکھیں؟ اِس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، اتنا یاد دلا دوں کہ مہمانِ خصوصی نے اِس ’چڑی چھکے‘ کے دوران اپنی انگریزی مہارت اور قومی زبان سے محبت کے باوجود جو ناصحانہ انداز اپنایا اُس میں میزبانوں کے لئے تنقید و تنبیہہ کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اگلے دن روزنامہ ’نوائے وقت‘ نے سی۔بی سائنس انٹر کالج واہ میں پروفیسر اشفاق علی خاں کی تقریر صفحہء اول کی تین کالمی خبر کے طور پہ شائع کی اُس کی سُرخی بھی متوازن تھی اور ہر طرح کی حقیقی یا امکانی استہزا سے بالکل پاک۔ سُرخی کے الفاظ اب تک یاد ہیں: 
”تعلیمی تقریبات میں قومی زبان کو اظہارِ خیال کا ذریعہ ہونا چاہئے“۔ یہ تھے ہمارے اشفاق علی خاں۔ (جاری ہے) 

مزید :

رائے -کالم -