عام آدمی کے مسائل اور اشرافیہ 

   عام آدمی کے مسائل اور اشرافیہ 
   عام آدمی کے مسائل اور اشرافیہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاست کی گرم بازاری میں ارباب اختیار کی توجہ عام آدمی کے مسائل کی طرف کم ہی رہ گئی ہے جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عام آدمی بری طرح پس کر رہ گیا ہے۔مجھے ایک میرج کلب کے مالک نے بتایا کہ جہاں لوگ 500 افراد کی بکنگ کراتے تھے اب وہاں ڈیڑھ سو افراد سے اوپر نہیں جاتے۔ میں نے کہا بھائی یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ لوگوں میں سادگی اور کفایت شعاری آرہی ہے۔اس نے کہا بات یہ نہیں ہے ہزاروں لوگوں کا روزگار ان میرج کلبوں سے وابستہ ہے۔ جب ان کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے تو وہ لازماً عملے کی چھانٹی کریں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ اصل میں  یہ ایک بیرو میٹر ہے جو اس بات کا اشارہ کر رہا ہے کہ ملک میں لوگوں کے معاشی حالات کس حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ میں نے اس کی بات  پر غور کیا تو اس میں وزن نظر آیا کیونکہ اگر لوگ خوشی کے موقع کو بھی پوری طرح نہیں منا سکتے تو یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ کہنے کو آئے روز یہ خبریں آتی ہیں کہ ملک کے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔مہنگائی کی شرح میں کمی نہیں اضافہ ہو رہا ہے۔ضروریات زندگی کی اشیاء_  عوام کی دسترس سے باہر جا رہی ہیں۔محدود آمدنی کا عذاب عوام پر آئے روز ٹوٹ رہا ہے ایسے میں اگر حکومتوں کی توجہ صرف سیاسی مسائل پر مرتکز ہے اور سوائے سیاسی مخالفین کو دبانے اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی ترجیح ان کا نصب العین بن گئی ہے تو یہ بڑی افسوس ناک صورتحال ہے۔ 

ملک کے سنجیدہ فکر طبقے ایک عرصے سے یہ توجہ دلا رہے ہیں کہ ملک میں ایک سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے،بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہو اور ملک معاشی گرداب سے نکل سکے مگر اس پہلو پر توجہ دینے کی بجائے سیاسی محاز آرائی کو فروغ دینے والے اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں  آئے روز کے مناقشات معاشی بے چینی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ کساد بازاری کا  یہ عالم ہے کسان علیحدہ پریشان ہے، تاجر طبقہ دوسری طرف واویلا کر رہا ہے، مزدوروں کے لیے دیہاڑی ملنا مشکل ہو چکا ہے یہ سب سامنے کے حقائق ہیں۔ بڑے شہروں کے مختلف چوراہوں پر آپ کو ایسے سینکڑوں مزدور مزدوری کی آس میں کھڑے نظر آئیں گے جو روزانہ گھر سے مزدوری ملنے کا خواب لے کر نکلتے ہیں مگر سارا دن بیٹھ کر خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ جب تک معاشی سرگرمیاں نہیں ہوں گی، تعمیرات کا شعبہ نہیں چلے گا دیگر پیداواری سرگرمیوں کا،آغاز نہیں ہوگا تو روزگار کے مواقع کیسے پھیلیں گے؟ یہ بڑی سادہ سی سائنس ہے اس کا بڑی آسانی سے جواب ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن ہمارے  مقتدر طبقے اس چیز کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں جبکہ معاشی حوالے سے معجزے نہیں برپا نہیں ہوتے اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ملک میں استحکام لا کر ایسی فضا بنانا پڑتی ہے جو کاروباری اور معاشی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہو۔ بدقسمتی سے ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا بس ایک معجزے کا انتظار ہے جس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔

کسی بھی چوک چوراہے پر چلے جائیں گاڑی رکتے ہی  مدد کے لیے ہاتھ پھیلائے لوگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے اگر کوئی اس کی یہ تاویل پیش کرتا ہے کہ لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے، وہ پیشہ ور بھکاری بن گئے ہیں، انہوں نے آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے تو میرے نزدیک یہ بڑی سفا کانہ سوچ ہے۔سوال یہ ہے کہ لوگ اس طرف متوجہ کیسے ہوئے ہیں۔بھیک مانگنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے اپنی خودداری کو، انا کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ کیا اتنی بڑی تعداد میں لوگ صرف پیسے کے لیے اپنی خودی بیچ رہے ہیں یا حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ وہ انسانوں کے سامنے دست سوال دراز کریں اگر روزگار کے مواقع آسانی سے دستیاب ہوں،مناسب معاوضہ بھی ملے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی عزت، آبرو،خودداری اور انا کو قربان کر کے چند ٹکوں کے لیے چوک چوراہے پر آ کر کھڑا ہو جائے۔ یہ حالات کی سنگینی کا ایک اشارہ ہے لوگ اب زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے پچھلے چند برسوں میں روزگار کے کون سے مواقع پیدا کیے ہیں۔ہم تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ایسے ہی دیگر امدادی پروگراموں کے ذریعے ایسی آبادی پیدا کرتے رہے ہیں جو محنت کی بجائے امداد پر پلنے کی عادت میں مبتلا ہو چکی ہے۔ ہم نے بنگلہ دیش  ماڈل بھی اختیار نہیں کیا کہ جہاں کاٹج انڈسٹری کو فروغ دے کر بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے اور  بننے والی مصنوعات زر مبادلہ کا باعث بنیں۔  کاش ہماری اشرافیہ اپنے خود ساختہ معیار سے باہر نکلے اور ایسی پالیسیاں بنائے جو ملک اور قوم کو اس معاشی بحران سے نکالیں جس میں ہم ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -