رکی ہوئی زبان مشین کی طرح چلنے لگی، اس نے رٹے رٹائے الفاظ میں تاریخ بیان کرنا شروع کی، آگے بڑھے تو وہ عظیم ا لشان مگر مصنوعی پہاڑی نظر آئی 

  رکی ہوئی زبان مشین کی طرح چلنے لگی، اس نے رٹے رٹائے الفاظ میں تاریخ بیان ...
  رکی ہوئی زبان مشین کی طرح چلنے لگی، اس نے رٹے رٹائے الفاظ میں تاریخ بیان کرنا شروع کی، آگے بڑھے تو وہ عظیم ا لشان مگر مصنوعی پہاڑی نظر آئی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف،: محمد سعید جاوید
قسط:96
 یہاں سے فرعون رعمیسس ثانی اور اس کی ملکہ کے مندر چند ہی کلومیٹر دور تھے۔ بس 5 ہی منٹ لگے ہوں گے اور ہم وہاں پہنچ بھی گئے۔ بس ہمیں وہاں اتار کر ایک طرف کو ہو کر وہاں اکلوتے درخت کے سائے میں کھڑی ہوگئی۔ ہمیں 2 گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا اور ایک گائیڈ ہمارے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ ابھی صبح کے8 ہی بجے تھے مگر یوں لگ رہا تھا جیسے کڑکتی دوپہر آگئی ہے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں بہت شدید گرمی پڑنے والی تھی۔ میں تو سعودی عرب میں رہ کر گرمی کی انتہاؤں کا عادی ہوگیا تھا،لیکن میرے مغربی دنیا کے ساتھی سیاح ابھی سے پھنکاریں مار رہے تھے۔ یہ سلسلہ تو آگے چل کر اور بھی زیادہ ہونے والا تھا،کیونکہ ہم کو اس چٹیل میدان اور چٹانوں کے آس پاس ہی پھرنا تھا۔
ہم اپنے گائیڈ کی معیت میں آگے بڑھے اور ایک چھوٹی سی پہاڑی سے ہوتے ہوئے نشیب کی طرف اتر کر کچھ آگے بڑھے تو سامنے ہی وہ عظیم الشان جھیل ناصر حد نظر تک پھیلی ہوئی تھی،جس کا ایک سرا تو اسوان ڈیم پر تھا تو دوسری طرف یہ سوڈانی سرحد میں داخل ہو کر دور تک اندر چلی گئی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی تھی جس سے جھیل میں سمندر کی طرح لہریں بن رہی تھیں جو کنارے پر آکر اپنا سر پٹخ کر واپس چلی جاتی تھیں۔ ہم سب وہاں کھڑے بڑی دیر تک اس حسین منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دور جھیل میں چھوٹی بڑی کشتیاں،بحری جہاز اور کروز شپ آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر تو سوڈان کی طرف جا رہے تھے یا اسی طرف سے آ رہے تھے۔ کچھ جہاز سیاحوں کے بھی تھے جو بذریعہ جھیل اسوان سے ابو سمبل پہنچے تھے اور اب وہاں لنگر انداز تھے۔
 فرعون بادشاہ،  رعمیسس ثانی کا مندر
 گائیڈ نے ہلکی آواز میں کھانس کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بائیں طرف چلنے کو کہا اور پھراس کی رکی ہوئی زبان مشین کی طرح چلنے لگی اور اس نے رٹے رٹائے الفاظ میں اس علاقے کی تاریخ بیان کرنا شروع کی۔ آگے بڑھے تو وہ عظیم ا لشان مگر مصنوعی پہاڑی نظر آئی جس کے اند ر یہ دیو ہیکل مندر بنایا گیا تھا اور اس سے لگ کر رعمیسس ثانی کے بیٹھی ہوئی حالت میں چار دیو قامت مجسمے تھے۔ جیسا پہلے لکھا کہ یہ کوئی 70 فٹ اونچے تھے اور ان کے چہروں کی چوڑائی کسی صورت بھی بارہ فٹ سے کم بھلا کیا ہو گی۔ حالانکہ یہ چاروں مجسمے ایک ہی بادشاہ یعنی رعمیسس ثانی کے تھے،لیکن ہر ایک کی وضع قطع مختلف تھی جو اس کے مختلف دور حکومت کی عکاسی کرتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں اور بھی چھوٹے بڑے کئی مجسمے موجود تھے۔ کچھ تواتنے چھوٹے تھے کہ لگتا تھا کہ وہ ان کے پیروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم خود بھی بمشکل بادشاہ کے قدموں تک ہی پہنچ پائے تھے۔دائیں طرف کے دوسرے مجسمے کا سر ٹوٹ کر اس کے قدموں میں گرا پڑا تھا۔ یہ غالباً کسی قدیم دور میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ٹوٹ کر گر گیاتھااور پھر اسے کوئی جوڑ ہی نہ سکا،اور اس کو اسی حالت میں یہاں لا کر یہاں دوبارہ اس کے قدموں میں رکھ دیا گیا تھا۔ کافی صاف ستھرا کام کر نے کے باوجود تمام مجسموں کے جسم اور چہروں کے حصوں پر ابھی تک مشینی آروں سے کٹنے کے واضح نشان موجود تھے،جو ان کی یہاں منتقلی کے موقع پر ان کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے لئے کئے گئے تھے۔ ہم بڑی دیر تک وہاں کھڑے ان کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ بنانے والوں نے پتہ نہیں ان مجسموں کو مکمل کرنے میں کتنے برسوں تک جان ماری ہوگی۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -