فخر زمان کی روایت شکن غزل

فخر زمان کی روایت شکن غزل
 فخر زمان کی روایت شکن غزل
کیپشن: nasir bashir

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سلطنت گول کنڈا کے حاکم محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان، شاعر تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اردو غزل کا باوا آدم، دلی دکنی کو کہا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ کے سرپر اولیت کا تاج تو رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کی غزل ، شاعری کے اس معیار تک نہیں پہنچتی جو اس کے بعد آنے والے شاعروں نے قائم کیا۔ زبان و بیان کی خامیاں، اوزان کی مجبوریاں اور خیال و معنی کی پیچیدگیاں قلی قطب شاہ کو بڑے شاعروں کی صف میں کھڑا ہونے سے روکتی ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اس کے سر سے اولیت کا تاج اتار نا مشکل ہے۔ دلی دکنی تک آتے آتے، اردو شاعری نے زبان و بیان، خیال و معنی اور اوزان کی بہت سی پابندیوں کو اپنا لیا تھا، چنانچہ دلی دکنی متقدمین میں سرفہرست ٹھہرتا ہے، آج شاعری کی کوئی بھی تاریخ، دلی دکنی کے اچھے ذکر سے خالی نہیں۔
پہلی بار کوئی نیا کام کرنے والے کے سامنے چونکہ کوئی معیار نہیں ہوتا، اس لئے اس کے ہاں بہت سی کمزوریاں ، خامیاں اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی مثال موجود ہے۔ ان کے پہلے ناول ”مراة العروس“ اور اس کے بعد لکھے جانے والے ان کے تمام ناولوں پر بہت سے اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں، مثلاً یہ کہ وہ وعظ و نصیحت کا بیان بہت طویل کر دیتے ہیں۔ ان کے کردار مثالی اور جامد ہوتے ہیں۔ جیسے وہ ناول کی ابتدا میں دکھائی دیتے ہیں، ویسے ہی آخر تک رہتے ہیں۔ ان کا پلاٹ بہت ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے۔ ان کے کسی بھی ناول کی اگر کسی کڑی کو نکال دیا جائے تو بھی کہانی میں کوئی خلا محسوس نہیں ہوتا، لیکن اس سب کے باوجود ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کو متفقہ طور پر اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے اور تمام مورخین ادب اور ناقدین ادب اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی بار، کوئی نیا کام کرنے والا ادیب یا شاعر ہمیشہ اعتراضات کی بارش میں بھیگتا رہتا ہے، بالآخر اس پر وارد کئے جانے والے اعتراضات، اس صف کے خط و خال واضح کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں مجھے میرتقی میر کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا!
یہ ساری باتیں مجھے جناب فخر زمان کی غزلوں کا مجموعہ ”شہر گرہن“ دیکھ کر یاد آئیں۔ ”شہر گرہن“ غزلوں کا ویسا مجموعہ نہیں، جیسے آج کل دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں۔ اس مجموعے کا نیاپن، اس کا طرئہ امتیاز ہونے والا ہے۔ غزل کے روایتی شاعر اگر یہ مجموعہ دیکھیں گے تو کرنے کے لئے ان کے پاس بہت سے اعتراضات ہوں گے.... مثلاً یہ کہ انہوں نے غزل کے روایتی ڈھانچے کا خیال نہیں رکھا۔ وہ مطلعے کا وجود ضروری نہیں سمجھتے ۔ بعض غزلوں کا مطلع غزل کے اندر موجود ہے ،لیکن غزل کا آغاز سادہ شعر سے کیا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ غزل میں قافیہ ضروری ہے، ردیف ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا.... لیکن فخر زمان نے اپنی انحرافی طبیعت کے باعث یہ اصول بھی توڑ دیا ہے۔ ان کی بعض غزلوں میں ردیف موجود ہے ،لیکن قافیہ سرے سے غائب ہے۔ ان کی زبان پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، اوزان پر بات ہو سکتی ہے ،لیکن اچھوتے پن اور نئے پن کی تلاش میں رہنے والوں کے لئے یہ مجموعہ اپنے اندر کافی کشش رکھتا ہے۔ فخر زمان نے دراصل شعوری طور پر غزل کے روایتی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کی ہے۔ ایک زمانے میں ظفر اقبال نے بھی یہی کام کیا تھا، لیکن بالآخر انہیں غزل کے اصل مدار تک واپس آنا پڑا تھا۔ فخر زمان نے نئی لفظیات کو شاعری کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم جو زبان عام زندگی میں بولتے ہیں، وہی ادب میں بھی استعمال کرنی چاہئے۔
 وہ عام طور پر پنجابی والوں کی مثالیں دے دے کر اہل ادب سے پوچھتے ہیں کہ اگر ہم پنجابی زبان میں تھرما میٹر کہتے ہیں تو ادب کی تخلیق کے وقت ہم اسے پخ میچو کیوں کہتے ہیں؟ اگر ہم عام بول چال میں زخمی کو زخمی کہتے ہیں تو شعر یا نثر میں پھٹڑی کا لفظ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ وہ چاہتے ہیں کہ اگر زبان میں کسی اور زبان کے لفظ آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں کافر قرار دے کر نکالنے کی کوشش نہ کریں۔ یقینا ایسے ہی خیالات ان کے اردو کے بارے میں ہوں گے۔ آج اردو زبان دہ نہیں جو قلعہ معلیٰ میں بولی جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود ہم روزمرہ اور محاورے کی پابندی پر زور دیتے ہیں۔ میرے ایک دودوست کہتے ہیں کہ وہ ”اردوئے معلیٰ“ کے نہیں ”اردوئے محلہ“ کے قائل ہیں۔ لگتا ہے کہ فخر زمان بھی ”اردوئے محلہ“ پر ایمان لے آئے ہیں۔ میرے نزدیک اب بات ”اردوئے محلہ“ سے بڑھ چکی ہے۔ اب ایس ایم ایس کے ذریعے ایک نئی زبان وجود میں آ رہی ہے، جسے موبائل استعمال کرنے والا تقریباً ہر شخص استعمال بھی کر رہا ہے اور سمجھ بھی رہا ہے۔ ایس ایم ایس کی زبان کو آپ آج کی جدید ترین اردو زبان کہہ سکتے ہیں۔ فخر زمان کی کتاب ”شہر گرہن“ کی شاعری کو مَیں نے آج کی جدید ترین اردو کی نمائندہ غزل سمجھ کر پڑھا ہے۔ اسے اس نئی اردو زبان کی پہلی کتاب کہا جا سکتا ہے، اس لئے اب انہیں، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی طرح اعتراضات کا سامنا تو کرنا پڑے گا، لیکن یہ مَیں یقین دلاتا ہوں کہ ان کے سر سے اولیت کا تاج کوئی نہیں اتار سکے گا۔
مَیں چاہتا ہوں کہ اس کتاب میں سے چند اشعار اپنے قارئین کے سامنے رکھوں تاکہ وہ اپنی بھی کوئی رائے قائم کر سکیں:
گھر میں تو داخلے کا مجھے علم ہے، مگر
پر دل میں داخلے کا بتا کیا ہے پاس ورڈ
............................
ہم زیست کی کتاب کا ہیں مرکزی خیال
فٹ نوٹس میں کئی ہے ہماری تمام عمر
............................
گولی چلی تو ٹھیک نشانے پہ جا لگی
بے شک تمہارے پاس تھی گاڑی بلٹ پروف
................................
ایسے کتاب چھپ گئی تو کیا کہیں گے لوگ
بہتر یہی رہے گا کہ پہلے پڑھو پروف
....................................
اچھے بھلے کھلاڑی تھے، دنیا تھی معترف
پھر کیا تھی مصلحت کہ نکالا ہے ٹیم سے
................................
ہجرت جو کر رہے ہیں یہاں سے تمام لوگ
ویران شہر ہو گیا، اُن کی سکیم سے
جدت کی راہ میں چلتے چلتے فخر زمان کی غزلوں کے بعض اشعار ایسی گہری معنویت سے آشنا ہوئے ہیں کہ وہ آج کی غزل اور آج کے سماجی منظر نامے کی تصویر بن گئے ہیں۔
ذرا یہ اشعار بھی ملاحظہ کیجیے:
باری کے انتظار میں بیٹھے ہیں عمر سے
ہم بارہویں کھلاڑی ہیں جیون کے کھیل میں
................................
اخبار میں اک گم شدہ انساں کی ہے تصویر
آئینے میں دیکھا ہے کہیں مَیں تو نہیں ہوں
................................
تم ماہر تعمیر ہو، چرچا ہے تمہارا
اس ریت سے دیوار بنا کر تو دکھاﺅ
................................
اتنا اونچا کر دیا دیوار کو ہمسائے نے
گھر مرا محروم سارا روشنی سے ہو گیا
................................
مَیں اتنی دور بیٹھ کے کرتا ہوں یہ دُعا
ہے دشمنوں کے بیچ تو اپنا خیال رکھ
................................
جب راہ سے قومیں ہٹ جائیں اور شر کی گواہی دینے لگیں
تب ہوتا ہے ناراض خدا اور آفت کا در کھلتا ہے
................................
جب بھی اسے مَیں کہتا ہوں آﺅ پڑھیں نماز
اس کا جواب ہوتا ہے میرا وضو نہیں
................................
فخر زمان نے غزل کے روایتی معنی و بیان کو بدلنے کی کوشش شعوری طور پر کی ہے، اس کا اظہار انہی کے اس شعر میں دیکھ لیجیے:

تشبیہیں بھی بدل دو، سبھی استعارے بھی
اپنی زمیں کی مٹی سے ڈھونڈو علامتیں

میرے قارئین جانتے ہیں کہ مَیں خود غزل کا ایک شاعر ہوں اور سرگشتہ خمار رسوم و قیود ہوں۔ روایت کا تیشہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہوں: اس کے باوجود فخر زمان کی روایت شکن غزل کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مجھے ان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے غزل سے اظہار عشق کر دیا ہے تو اب دشت و صحرا کی خاک چھاننے کے لئے تیار رہیں۔ اعتراضات کے پتھر ان کی طرف پھینکے جائیں گے، لیکن اولیت کا تاج ان کے سر سے کوئی نہیں اتار سکے گا۔

مزید :

کالم -