پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ماتھے کا جھومر
’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ یہ سلوگن ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ۔ جو ’’سلوگن‘‘ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن حقیقت میں پولیس کا جس قسم کا رویہ ہے وہ اس سلوگن کا ہمیشہ منہ چڑاتا ہے۔ پولیس کے ظلم کی آئے روز کتنی ہی کہانیاں زیب داستان بنتی ہیں۔ جنہیں اخبارات کے صفحہ اوّل یا صفحہ دوئم سمیت آخری پیج کی زینت بنایا جاتا ہے۔ جس سے عوام میں پولیس کے لئے نفرت تو بڑھتی ہی ہے، ساتھ فاصلوں کی خلیج بھی مزید وسیع ہو جاتی ہے۔
پولیس کا فرض ہے جہاں قابلِ دست اندازئ پولیس جرم سرزد ہو وہ نہ صرف اُس کا فوری نوٹس لے، بلکہ مظلوم کی مقدور بھر قانونی مدد بھی کرے۔ یہ ذمہ داری قانون نے پولیس کو سونپی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس پر پولیس پوری طرح عمل نہیں کرتی۔ کہیں یہ شکایت پیدا ہوتی ہے کہ پولیس وقوعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہی۔ کہیں یہ معاملہ سامنے آتا ہے کہ ایف آئی آر کا اندراج تو کر لیا گیا ہے لیکن پولیس ملزموں کی گرفتاری میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ مارپیٹ، تشدد اور انسانی بے حرمتی جیسے کئی واقعات ہیں جو پولیس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔یہ وہ الزامات ہیں جو پولیس پر روز لگتے ہیں اور روز ہی انہیں ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جُوں تک رینگے۔ ایسے ڈیپارٹمنٹ میں جو ہمیشہ تنقید کی زد میں ہی ہو۔ اور جس کا اُجلا چہرہ کسی نے نہ دیکھا ہو۔ اُس میں بعض اچھے اور نیک افسران کا موجود ہونا اس جیسے بدنصیب ڈیپارٹمنٹ کے لئے خوش بختی ہی کی علامت کہا جا سکتا ہے۔
اپنے اس کالم کو اُن تمام افسروں کے نام کرتا ہوں جو واقعی انصاف پسند، نیک دل اور قانون پسند ہیں اور قانون کے مطابق ہی عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ وہ کچھ کر جاتے ہیں جس کی توقع ایک عام انسان اُن سے نہیں کر سکتا۔ یعنی پولیس والوں کے بارے میں اُن کے دلوں میں جو گمان ہے اور جو تصویر بنی ہوتی ہے وہ قابلِ فخر نہیں ہے۔ یہی سوچ کر ہی شرم سے ہر کسی کا سر جھک جاتا ہے۔
یہاں میں احمد رضا طاہرکا ذکر کروں گا جو ایس ایس پی لاہور اور سی سی پی او لاہور بھی رہے۔ اُن دنوں احمد رضا طاہر کی تعیناتی بطور آر پی او گوجرانوالہ تھی۔ وزیرآباد کے ’’کوٹ قاضیاں‘‘ سے تعلق کے باعث یہ علاقہ بھی گوجرانوالہ ہی کی حدود میں آتا ہے۔ یہاں سے ہماری ایک گاڑی شہ زور چوری ہو گئی۔ جس کا مقدمہ تھانہ ’’سٹی‘‘ وزیرآباد میں درج کرایا۔ یہ ایک ’’بلائنڈ‘‘ مقدمہ تھا۔ بڑی پریشانی تھی کہ کیا کیا جائے، گاڑی کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اپنے آدمی چاروں طرف پھیلائے ہوئے تھے جو مجھے پَل پَل کی خبر دے رہے تھے۔ اس وقوعہ میں ہمارے ڈرائیور کا ہاتھ لگتا تھا۔ تھوڑی سی تفتیش کی تو اس واقعہ کے تانے بانے ساہیوال تک پہنچے جب اپنے ایک خاص آدمی کو ساہیوال بھجوایا تو اس نے ایک روڈ پر مسروقہ ڈالے کا سراغ لگا لیا۔ ڈالے کی چوری میں جو مقامی لوگ ملوث تھے ، اُس کا سرغنہ ایک ایسا بااثر شخص تھا جسے مقامی میڈیا کے نمائندوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس لئے یہ بااثر شخص وزیرآباد اور گوجرانوالہ میں سرگرمِ عمل تھا۔ اُسے معلوم ہو چکا تھا کہ ہمیں ساہیوال میں شہ زور کی موجودگی کا علم ہو چکا ہے۔ اس لئے مذکورہ بااثر شخص نے پولیس کے حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ چاروں طرف پھیلا دیا تھا جس کا مجھے بھی علم ہو چکا تھا۔
لہٰذا میں نے مزید کوئی وقت ضائع کیے آر پی او گوجرانوالہ احمد رضا طاہر کو فون کیا اور بحیثیت کالم نویس اپنا تعارف کراتے ہوئے اُن کے سامنے اپنا مُدّعا بیان کیا۔ میری بات سن کر احمد رضا طاہر نے کہا ’’سعد صاحب! فکر یا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ شہ زور کا سراع مل گیا ہے تو وہ آپ تک پہنچ بھی جائے گی۔ بس آپ تھوڑا سا انتظار کریں۔ ابھی برآمدگی کے لئے حکم جاری کرتا ہوں۔‘‘ اُن کے حکم پر ایک ریڈنگ پارٹی تشکیل دی گئی جو اُسی وقت ساہیوال روانہ ہو گئی اور 12گھنٹے سے بھی پہلے شہ زور کو برآمدکر لیا گیا اور جب میں تھانہ ’’سٹی‘‘ پہنچا تو شہ زور ڈالہ وہاں موجود تھا۔
احمد رضا طاہر کی پوسٹنگ نجانے اس وقت کہاں ہے؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے اپنی انصاف اور حقیقت پسندی کے باعث ہر خاص و عام میں مقبول ہی ہوں گے۔ پولیس جوائن کرنے سے پہلے وہ لیکچرار تھے یعنی درس و تدریس اُن کا شعبہ تھا۔ جہاں یقیناًوہ اپنے طالب علموں کو اچھی باتیں بتاتے اور سکھاتے ہوں گے اور پولیس جوائن کرنے کے بعد یقیناًاُن کی فکر اور طرز عمل میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ایسے ہی پولیس افسران کی پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ضرورت ہے۔
راؤ منیر ضیاء بھی ایک ایسے پولیس افسر ہیں جن سے میری پہلی ملاقات وزیرآباد میں کئی سال پہلے ہوئی۔ تب وہ اے ایس پی تھے اور اُن کی تعیناتی بحیثیت ایس ڈی پی او یہاں تھی۔ وزیرآباد کے ایک ڈیرے دار نے جس کا طوطی گجرات سے وزیرآباد تک بولتا تھا، دشمنی کی بنیاد پر میرے خلاف ایک بے بنیاددرخواست تھانہ میں دے دی جس کی انکوائری راؤ منیر احمد ضیاء کے پاس تھی۔ انہوں نے دونوں فریقوں کو آمنے سامنے بٹھایا ۔ دونوں اطراف کی بات سنی۔ کچھ سوال بھی کئے جو سچ تک پہنچنے کے لئے بے حد ضروری تھے اور میرا مخالف جو انتہائی بااثر شخص اور جس کا بھائی وفاقی وزارت داخلہ میں اعلیٰ عہدے کا افسر تھا، بھی راؤ منیر ضیاء کو کسی طرح بھی مرعوب نہ کر سکا اور انہوں نے میرٹ پر میرے حق میں فیصلہ سنایا۔ اس بااثر شخص کو اے ایس پی کے دفتر میں منہ کی کھانی پڑی۔ اُس کی کوئی بھی سفارش اُس کے کام نہ آسکی اور وہ اے ایس پی کے دفتر سے منہ لٹکا کر باہر نکلا۔
راؤ منیر ضیاء کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتا کہ اس وقت کہاں اور کس عہدے پر ہیں لیکن میرا یقین ہے وہ ایس ایس پی یا ڈی آئی جی کے عہدے پر ضرور متمکن ہوں گے اور اسی طرح کے دلیرانہ فیصلے کرتے ہوں گے۔ جس طرح کے فیصلے کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔
لاہور کے ایس پی سی آئی اے کی بھی بہت تعریف سنی ہے۔ اُن کا اکثر ذکر سینئر جرنلسٹ شوکت ڈار کرتے ہیں۔ ایس پی عمر ورک کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ ہر تفتیش یا انکوائری میرٹ پر کرتے ہیں۔ کسی ناجائز سفارش کو نہ مانتے ہیں اور نہ اُس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اُن سے تفتیش کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اعلیٰ افسران بھی اُن پر بے حد بھروسہ کرتے ہیں۔ اُن پر بھروسے کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس بعض اہم تفتیشی معاملات اُن کے سپرد کرتے ہیں۔ انہیں ’’اندھے کیسوں‘‘ کی تفتیش کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے کیس نا صرف پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں، بلکہ انہیں انجام تک پہنچا کر اصل ملزموں تک پہنچنا بھی انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے لیکن عمر ورک اتنے جینئس ہیں کہ بخوبی کڑی سے کڑی ملاتے اُن تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔
یہ چند افسروں کا ذکر ہے۔ ابھی اِن جیسے اور بھی کتنے ہی اچھے افسران اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ پھر کسی کالم میں ان کا ذکر کروں گا کہ کسی کے اچھے کام کو سراہنے کا یہی ایک بہترین طریقہ ہے۔