کرکٹ! شکست کی وجہ سازش ہے؟
یہ تو ہونا ہی تھا، ہر شکست کے بعد تنقید تو اپنی جگہ، کیڑے نکالنا بھی ضروری ہے، لیکن یہاں تو نوعیت ہی مختلف ہے، پاک بھارت میچ کو آج تیسرا دن ہے اور اب تبصروں کا رُخ اصل کی طرف آ گیا اور گزشتہ روز سے تو سکندر بخت نے بھی مصباح الحق کو نشانے پر رکھ لیا اور اس کی قیادت پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں، ان سینئر کھلاڑیوں اور تجزیہ کاروں نے بھی مختلف کھلاڑیوں کی اچھائی اور برائی پر نظر رکھی یا پھر اپنی پسند کے مطابق رائے دی، ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے جانے والی ٹیم توسب کو نظر آئی، لیکن انتظامیہ پر ہتھ ہولا رکھا گیا، جن حضرات نے ان کا ذکر کیا ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ ذاتی پرخاش اور خواہش رکھتے ہیں۔ البتہ وسیم اکرم سمیت بعض تبصرہ نگاروں نے حقیقت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا، ہمیں ان حضرات کی رائے بہتر لگی، جنہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا بھر کی ٹیموں نے ورلڈکپ کے لئے دو دو سال سے محنت شروع کر رکھی تھی اور کھلاڑیوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے، لیکن پاکستان میں کرکٹ بورڈ میں اتھل پتھل ہو رہی تھی اور لوگ نوکریوں اور مفادات کے لئے پریشان ہو کر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ بہرحال اب بھی اصل حقائق سامنے نہیں لائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا یہ حال سازشیوں نے کیا، جو دراصل مصباح الحق اور محمد حفیظ کو باہر کرانا چاہتے تھے تاکہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی کپتان بن سکیں اور پھر یہ کھلاڑی خود بھی اس کھیل میں شریک تھے اور ہیں جبکہ چیف کوچ (جو اہلیت کے بغیر بنے) اپنی پرانی رقابتیں نہیں بھولے۔
بھارت کے ہاتھوں شکست پہلی بار تو نہیں ہوئی، پچھلے ورلڈکپ میں سیمی فائنل بھی بھارت سے ہوا اور ہارے تھے۔ اب تو پہلا ہی میچ ہار گئے اور ٹیم کی جو حیثیت نظر آئی وہ اگلے میچوں کے لئے بھی زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ بہتر عمل تو یہ ہے کہ اس وقت خود کرکٹ بورڈ کے چیئرمین مداخلت کریں اور یونس خان کو ان فٹ قرار دے کر واپس بھجوائیں اور اس کے متبادل کے طور پر اظہر علی، سمیع اور فواد عالم میں سے کسی کو بھجوا دیں کہ اگر یونس خان، شاہد خان آفریدی کی موجودگی میں رہے اور وقار یونس بدستور سوجے مُنہ کے ساتھ کھلاڑیوں کو ڈانٹتے رہے تو نتیجہ بہتر نہیں ہو گا۔
دو تین دن خاموش رہے کہ جس نے جو کہنا کہہ لے اور ہار کا صدمہ ذرا کم ہو جائے تو اصل سازش کا ذکر کیا جائے۔ ایک بات پہلے عرض کر چکے ہوئے ہیں کہ وقار یونس کسی پرانے دور کی رنجش دل میں لئے ہوئے ہیں اور ان کی مہربانی سے شعیب ملک اور کامران اکمل سنٹرل کنٹریکٹ بھی حاصل نہ کر سکے اور پھر ان کی جگہ30ممکنہ کھلاڑیوں میں بھی نہ بنی۔ ایک مخصوص لابی نے وکٹ کیپر سرفراز احمد کو آسمان پر چڑھایا، اتفاق سے وہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی سیریز میں سکور بھی کرگزرے اور ان کی بطور وکٹ کیپر بُری کارکردگی کو نظر انداز کر کے ان کو اوپننگ وکٹ کیپر بیٹسمین قرار دیا جانے لگا اور جب وہ فلاپ ہوئے تو ان کو بھارت کے خلاف میچ ہی سے ڈراپ کر دیا گیا،حالانکہ وہ ڈراپ ہوئے تو یونس خان کی جگہ نہیں بنتی تھی وہ یوں بھی آوٹ آف فارم تھے۔اگر پچھلی دو تین سیریز میں سکور نہ کرنے کے باوجود یونس خان پسند ٹھہرے تو ناصر جمشید کا کیا قصور تھا کہ اس کو پاکستان سے بُلا کر نہ کھلایا گیا کہ وہ پریکٹس میچ میں کچھ نہ کر سکے تھے، حالانکہ بھارت کے خلاف ان کا ریکارڈ بہترین ہے۔
یہ تو عام بات ہے، لیکن خاص امر یہ ہے کہ یہاں مستقبل کے لئے ٹیم کی قیادت کا مسئلہ ہے۔ مصباح الحق اور شاہد آفریدی کا یہ آخری ورلڈکپ ہے، دونوں ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے ہوئے ہیں۔ شاہد آفریدی نے ٹی20ٹیم کی قیادت پر اکتفا کر لیا ہے تاہم ہمارے یونس خان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا، مَیں تو ریٹائر نہیں ہو رہا، مَیں فٹ ہوں اور ابھی کھیلوں گا۔ مقصد یہ کہ مصباح الحق کے بعد ان کو کپتان بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے معین خان بھی ان کے ساتھ ہیں، جنہوں نے ان کی ایک روزہ کرکٹ میں شمولیت کی حمایت کی۔ اب ان کی راہ ہموار کرنے کے لئے محمد حفیظ کے ساتھ ایک دوسری زیادتی کی گئی، پہلے یونس اور آفریدی نے ٹیم مینجمنٹ کے بعض حضرات کے ساتھ مل کر ان کو مجبور کر دیا کہ ٹی 20ٹیم کی قیادت سے خود دستبردار ہوں۔ اب ان کا چانس ایک روزہ میچوں کے لئے کپتان کا بنتا ہے کہ وہ ٹیم میں نائب کپتان کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کو ان کی مرضی کے بغیر ایک ایسی انجری کے حوالے سے واپس بھجوایا جو ایک ہفتے کے اندر وہیں ٹھیک ہو جانا تھی کہ فزیو اور ڈاکٹر بھی ساتھ ہیں، لیکن اس کو پیش نظر نہ رکھا گیا اور واپس بھیج دیا کہ مبادا ورلڈکپ میں ان کی کارکردگی بہتر نہ ہو جائے کہ وہ مستقبل کی کپتانی کے ازخود حق دار بن جائیں۔ اس کھیل میں یونس اور آفریدی کے علاوہ اور کون شامل ہے اس کا اندازہ لگا لیں۔ اس کے علاوہ عمر اکمل کو جس طرح پھٹکارہ جاتا ہے اس بارے میں بھی پتہ چلایا جائے تو بہتر ہو گا۔ ایک تو اس کھلاڑی کو اس کی پوزیشن پر نہیں کھلایا جاتا دوسرے اسے کھلانے کے لئے سرفراز کو باہر کر کے اس سے وکٹ کیپنگ بھی کرائی جاتی ہے، جو اس پر اضافی بوجھ ہوتا ہے اور پہلے بھی سینئر حضرات اس دہری ذمہ داری کی مخالفت کر چکے ہوئے ہیں۔ حارث سہیل اچھا کھلاڑی ہے اسے ناکامی کے باوجود چوتھے نمبر پر بھیجا جا رہا ہے یہ عمراکمل کی حق تلفی ہے۔
اب ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی کا کمال ہے کہ اس نے نوجوان کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا، سمیع اور فواد عالم کو انڈر19 اور انڈر 21ورلڈکپ کے تجربات بھی حاصل ہیں۔ اول تو ٹیم میں تجربہ کار کامران اکمل (وکٹ کیپر+ اوپنر) لازم تھا تو شعیب ملک بھی آل راؤنڈر کی حیثیت سے ٹیم کا رکن بنتا تھا۔ اگر جنید خان کی جگہ بعد میں راحت کو منگوایا گیا تو ابتدا ہی میں کیوں نہ شامل کر لیا گیا کہ وہ ٹیم کے ساتھ ہوتا تو موسم کا بھی عادی ہو جاتا، لیکن یہاں تو معین خان کو ناز ہے کہ وہ بہترین سلیکٹر ہیں، حالانکہ بہت سے ہونہار اور تجربہ کار کھلاڑی نظر انداز کر دیئے گئے۔
وسیم اکرم نے بالکل درست کہا کہ کھلاڑیوں کو دبائے رکھنے کی بجائے ان کو آرام دہ محسوس کرنے کا موقع دینا چاہئے اور کھلاڑیوں کے اندر اعتماد کی بھی ضرورت ہے، ان کے سر پر ٹیم سے اخراج کی تلوار بھی ہٹا لینا چاہئے۔ اگر کھلاڑی بے یقینی کا شکار ہوں گے کہ ان کو کھلایا بھی جائے گا یا نہیں؟ تو وہ کیسے اعتماد کے ساتھ کھیل سکیں گے؟ خود اپنے رویے پر غور کر لیں، ٹیم کی اچھی کارکردگی کے لئے اچھا ماحول ضرور، اس کے لئے یونس خان کی واپسی ہو جانا چاہئے وہ خود تو کچھ بھی نہیں کر سکے۔ براہ کرم آئندہ میچوں کے لئے سازش بند کریں اور کھلاڑیوں کو اعتماد اور حوصلہ دِلا سکیں تو نتائج بہتر نکلیں گے ورنہ۔۔۔