پاکستان فلم انڈسٹری کی بحرانی صورتحال بد سے بد ترین ہورہی ہے
لاہور(حسن عباس زیدی)پاکستان فلم انڈسٹری کی بحرانی صورتحال بد سے بد ترین ہورہی ہے فلم انڈسٹری کی بڑھتی ہوئی بحرانی صورتحال نے سینماگھروں کے کاروبار کو بھی بے حد متاثر کیا ہے ،قیام پاکستان سے قبل اس خطے میں تقریباً850کے قریب سینماگھر موجود تھے اورسال میں بنائی جانے والی فلموں کی تعداد 130کے قریب تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے سینما گھر آباد تھے،اُن کی رونقیں بحا ل تھیں ہمارے سینماگھروں کو اتنی فلمیں دستیاب تھیں کہ ان کا کاروبارپورے عروج پر تھا۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سال میں زیادہ فلمیں بننے کی وجہ سے سینما کم پڑ گئے۔فلم انڈسٹری کے عروج کے دور میں فلم کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد خوشحالی کی زندگی گذار رہے تھے ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلمی صنعت کی سیاست اور گروپ بندیوں نے نگار خانوں کی رونقوں کو بربادی کی جانب دکھیل دیا اور جہاں پر رونق تھی اب وہاں ویرانی کے ڈیرے ہیں۔ گزشتہ 12سالوں سے لالی ووڈ کا بحران جاری ہے جس کا خاتمہ ایک خواب نظر آتا ہے،یہ بحران کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔اسی وجہ سے سینماؤں کی تعداد 850سے کم ہو کر120رہ گئی ہے اُن میں سے بھی اکثر فلمیں نہ ہونے کے باعث بند ہیں۔گزشتہ 50سالوں کے دوران مالکان نے حالات سے تنگ آکراپنے سینماگھروں کو پلازوں ،شوروم اور شادی ہالوں میں تبدیل کر دیا ہے ، مبارک سینما گزشتہ 10سالوں سے بند ہے اُس کے دروازوں پر لگے تالے سینما انڈسٹری کی بربادی کی داستان سُنا رہے ہیں۔اس سینما کے بانی پروڈیوسر مبارک مرحوم آج دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ مرحوم کے صاحبزادے ملک نصیر کو موجودہ حالات میں سینما چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کے مطابق اس دور میں سینما چلانا سرا سر گھاٹے کا سودا ہے ، ملازمین کی تنخواہ اور بجلی کے بل کی ادائیگی کرنا بھی ممکن نہیں ہے ،اس سے بہتر ہے کہ میں اپنے سینما کو بند رکھوں۔ نغمہ سینما کے مالک میاں امجد شاھین ہیں جہنوں نے فلموں کی کمی کے باعث اپنے سینما کو گاڑیوں کے شوروم میں تبدیل کردیا ،رتن سینما کے مالک چوہدری عید محمد نے سینما کو بند کرکے آدھے حصے کو شادی ہال میں تبدیل کر دیا او رباقی حصے کو تالے لگا دیئے ہیں اس کے بعد ترنم سینماکے مالک چوہدری سلیم سرور جوڑا ہیں یہ سینما بھی فلمیں دستیاب نہ ہونے کے باعث زیادہ تر بند رہتا ہے کراؤن کے مالک میاں معراج نے سینما کو پہلے تھیٹر میں تبدیل کیا اور پھر بز نس نہ ہونے کی وجہ سے اسے تھیٹر میں تبدیل کردیا گیا۔ پھرکچھ عرصے کے لئے سینما بنایا گیا آج کل سینما اور تھیٹر کی جگہ شادی ہا ل بن چکا ہے اس کے بعد پلازہ سینما ہے جس کے مالک جہانزیب اقبال نے اس کے آدھے حصے کو سی این جی سٹیشن میں تبدیل کردیا ہے ،امپیرئل المعرف مون لائٹ سینما کو بھی فلموں کی کمی کی وجہ سے اونر خورشید بیگم نے بند کر دیا ہے، انگوری سینما کے مالک میاں صلاح الدین نے بھی خرچہ پورا نہ ہونے پر سینما بند کردیا ، وینس سینما کی جگہ پٹرول پمپ بن چکا ہے شمع سینما کی جگہ فلیٹ بن چکے ہیں تاج سینمامیڈیکل سٹور میں تبدیل ہوچکاہے گلیکسی سینما میں شادی ہال بن چکا ہے نشاط ،ایمپائر،زینت،لبرٹی، پیراماؤنٹ، فردوس، الممتاز، کیپری، انگولا، صنم، لیرک، ریکس،ریوالی،شیش محل،محفل، اور دیگر کئی سینما فلموں کی کمی کے باعث بند ہوگئے
اکثر مالکان نے سینما کی جگہ دیگر بزنس شروع کر لیے ہیں مالکان کے مطابق اگر کاروبار میں فائدہ نہ ہوتو اسے تبدیل کرنا ہی بہتر ہے۔
حکومت نے ہماری نے ہماری سر پرستی نہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنے سینما گھر بند کرنے پڑے ۔حکومت ہمیں سینما گرانے سے نہیں روک سکتی ،اس وقت لاہور میں صرف 20 سینما گھروں میں فلمیں نمائش کے لئے پیش کی جارہی ہیں۔ زیادہ تر سینماؤں میں بھارتی فلمیں چلائی جارہی ہیں۔کچھ سالوں سے ملٹی پلیکسس سینماگھر بنائے گئے ہیں ،جن کا فائدہ بھارتی فلموں کے پروموٹرز کو ہواہے ،یہ سینماگھر پوش علاقوں میں بنائے گئے ہیں وہاں کے مکین پاکستانی فلموں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے فلمی حلقوں نے گزشتہ روز الحمراء ہال نمبر 3میں ایک سیمینار کے دوران حکومت سے فوری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے۔شرکاء کا کہنا ہے کہ جو لوگ فلم انڈسٹری کی تباہی اور اس کے بند ہونے کی باتیں کرتے ہیں وہ آج دیکھ لیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری زند ہ ہے اور ہر شعبے کا شخص انڈسٹری کو ترقی دینے کے حوالے سے بے پناہ جذبہ رکھتاہے ہماری فلمیں اب بھی دیکھی جا رہی ہیں۔ سیدنور نے کہا کہ ہمیں بھارتی فلموں کا خوف نہیں ہم آج بھی فلم بنا رہے ہیں ہم مفاد پرستوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ غداری نہ کریں اپنے کلچر کو بچانے کے لیے بھارتی فلم کی نمائش روکنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ بھارتی فلموں کے مخالف لوگ اپنے مطالبے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔اگر ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلمیں بھی نہ لگیں تو پاکستان میں کوئی سینما باقی نہ بچے مطالبہ کرنے والوں کی اکثریت نے سالوں سے کوئی فلم نہیں بنائی یہ تمام اجلاس اور سیمینار جھوٹی شہرت حاصل کرنے کا بہانا ہے۔یہ سب لو باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ سب صفر ہیں۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے سنیما گرنے کی بجائے دوبارہ بننا شروع ہوگئے ہیں۔