ترکی میں فوج اور بیورو کریسی نے عوام کو طاقت کا سر چشمہ مان لیا ،وزیر اعظم داؤد

ترکی میں فوج اور بیورو کریسی نے عوام کو طاقت کا سر چشمہ مان لیا ،وزیر اعظم ...
ترکی میں فوج اور بیورو کریسی نے عوام کو طاقت کا سر چشمہ مان لیا ،وزیر اعظم داؤد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد:عمر شامی سے

پاکستان مسلم سیاست کی تجربہ گاہ ہے اور اس کی کامیابی مسلم دنیا کی کامیابی تصور کی جائے گی۔ مشکلات کے باوجود پاکستان کا مستقبل روشن ہے اور جمہوری انداز میں اقتدار کی منتقلی اس کی جانب بڑا قدم ہے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف معاشرے میں اتفاق رائے پیدا کرے اور ایسے میں سیاسی اور عسکری قیادت کا یک آوازہونا قابل تحسین اقدام ہے۔ان خیالات کا اظہار ترک وزیر اعظم احمد داؤد نے اپنے دو روزہ دورہ پاکستان کے اختتام پر کیا۔ وہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے ارکان سے بات کر رہے تھے جس میں منتخب ایڈیٹرز شامل تھے ۔ ترک وزیر اعظم نے سارے دن کی جاں گسل مسلسل مصروفیات کے باوجود رات کو تاخیر سے ایڈیٹروں کے ساتھ ملاقات کے لئے وقت نکالا۔انہوں نے مختلف نوعیت کے امور پر تفصیلی گفتگو کی۔ دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل حقیقتوں اور ان کے پاکستان اور ترکی پر مرتب ہونے والے اثرات پر کھل کر بات کی۔ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر ہوتا ہے وہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو زیادہ وسیع نظری سے دیکھتے ہیں۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور قومیت پر مبنی ریاستوں کا فلسفہ بھی تبدیل ہورہا ہے، عراق اور شام اس کی بڑی مثالیں ہیں، اس موقع پر ترک وزیراعظم نے گزشتہ دو دہائیوں میں آنے والے بڑے ’’سیاسی و جغرافیائی زلزلوں‘‘ کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا پہلا بڑا جغرافیائی و سیاسی زلزلہ تھا جس کے اثرات آج تک یوکرائن میں جاری بحران کی شکل میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرا ایسا واقعہ امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ، پھر 2008ء میں بین الاقوامی مالیاتی بحران اور چوتھا اور آخری زلزلہ ’’عرب سپرنگ‘‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں صرف وہ ریاستیں اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہیں جن کے پاس ’’وژن‘‘ اور گورننس کی صلاحیت، دونوں چیزیں موجود ہوں۔ جن ریاستوں کے پاس ’’وژن‘‘ نہ ہو لیکن گورننس کی صلاحیت موجود ہو، وہ پھر بھی شائد اس طوفان کا مقابلہ کرسکیں لیکن اگر دونوں چیزوں کا فقدان ہو تو انجام صرف ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور افراتفری ہی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخ کا دھارا نہایت تیزی سے بہہ رہا ہے اور کسی بھی ملک کی خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ ایسا جمہوری نظام ہو جس میں حکمرانوں کا احتساب بھی ہو اور طویل مدتی معاشی ترقی کا وژن بھی۔ترکی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم احمد داؤدکا کہنا تھا کہ ان کا ملک بھی ان ’’زلزلوں‘‘ اور ان کے اثرات میں گھرا ہوا ہے لیکن وہاں ایسا جمہوری نظام رائج ہے جو مستحکم بھی ہے اور اس میں ذمہ داران کا احتساب بھی کیا جاتا ہے، اسی نظام نے ترک معاشرے کو ایک نئی شکل دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 12 برس میں ترکی کی فی کس آمدنی 3 گنا اضافے کے ساتھ 11 ہزار ڈالر ہوچکی ہے جبکہ اس کا جی ڈی پی 230 ارب ڈالر سے بڑھ کر 850 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ یہ ترقی صرف مستحکم جمہوریت اور شفاف نظام کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ’’ہم نے پرفارمنس کے ذریعے غیر جمہوری قوتوں کو شکست دی ہے اور ترک قوم میں خود اعتمادی بحال کی ہے۔ ترکی میں عوام کے علاوہ معاشرے کے کسی طبقے کو حکومت کا حق حاصل نہیں۔‘‘ماضی میں ترکی میں ہونے والی فوجی مداخلتوں پر گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیراعظم کا کہنا تھا 90ء کی دہائی تک صرف فوجی ہی ترکی کا وزیراعظم ہوسکتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا کنٹرول چھوڑنے کو تیار نہ تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ منتخب نمائندے سٹریٹجک فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ سیاسی حکومتوں کو سماجی و معاشی معاملات تک محدود کردیا جاتا تھا اور فارن پالیسی کے معاملات ان کی پہنچ سے دور تھے۔ یہ سب اب تبدیل ہوچکا ہے۔ فوجی اور سویلین بیوروکریسی اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ عوام ہی ’’طاقت کامنبع ‘‘ہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ پرفارمنس دکھائی جائے اور عام عوام کی زندگی بہتر بنائی جائے۔ ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے ،جمہوریت ترقی کررہی ہے اور ملک درست سمت میں جارہا ہے۔ ایک اخباری تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف ،آصف علی زرداری اور آرمی چیف ایک ہی میز پر بیٹھے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور اگر تمام لوگوں نے مشترکہ کاوشیں جاری رکھیں تو پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہوگا۔ حالیہ دنوں میں جاری پاکستانی سیاسی بحران کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا اور صورتحال کو سنبھالا. یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت فروغ پارہی ہے۔ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ترک وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک مل کر کام کرتے ہوئے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پاسکتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلاسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی نے دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیشہ ہی کوشش کی ہے اور اب ان کوششوں کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ مہینوں میں تینوں ممالک کی کانفرنس ترکی میں منعقد کی جائے گی۔وزیراعظم احمد اوغلو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اپنے ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہوں اور یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں اورآنے والے مہینوں میں ان میں مزید بہتری کی امید کرنی چاہئے۔ ترکی اور پاکستان کے معاشی حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کو عوام کی معاشی خوشحالی کے لئے استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک بھائیوں کی طرح ہیں لیکن اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان برادرانہ تعلقات کو معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترکی میں میڈیا بالکل آزاد ہے ۔ترکی میں 7 ہزار اخبارات اور 400 سے زائد قومی اور علاقائی چینل موجود ہیں اور وہ حکومت پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے 5 بڑے اخبارات میں سے 4 کھل کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں لیکن کچھ مفاد پرست عناصر میڈیا کے روپ میں حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی گروپ کو بھی حکومت کے متوازی نظام بنا کر ملک کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور قانون کے دائرے میں رہتے ہی تنقید کی جائے۔
فتح اللہ گولن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترکی کا امیج دنیا بھر میں بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ فتح اللہ گولن کے ہم خیال میڈیا کے لوگ ترکی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن اور طاہرالقادری میں دلچسپ مماثلت کرتے ہوئے ترک وزیراعظم نے کہا کہ مذہب کی آڑ میں سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانا انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ اگر کسی کو حکومت میں آنا ہے تو اس کے لئے سیاست کے دروازے کھلے ہیں اور وہ سیاسی پارٹی بنا کر انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ سیاست کی بنیاد مثبت روایات پر ہونی چاہیے نہ کہ سیاست کواستعمال کرتے ہوئے مثبت روایات کو تباہ کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے متوازی ایک مسلم آرگنائزیشن بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس طرح کا ادارہ وقت کی پکار ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اقوام عالم میں مسلم ممالک کے دگرگوں حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اپنے گھروں میں مثبت اقدامات اٹھا کر حالات بہتر بنانے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ہمیں ’آمریت‘ اور ’داعش‘ ماڈل میں پھنس جانا ہے یا پھر ایک تیسرا بہتری کا راستہ تلاش کرنا ہے جو جمہوریت کی کوکھ سے نکلتا ہے۔

مزید :

صفحہ اول -