مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

یہ بات میرے یا آپ کے بچوں کو پڑھانے کی نہیں،بلکہ یہ بات ہے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی۔۔۔اور جہاں بات ہو بچوں کی، پڑھائی کی اور دشمن کی تو نبی پاکؐکے عمل پر ہی ہماری اور آپ کی نظرہے۔ جب غزوہ بدر میں آپؐ نے فرمایا: ’’جو قیدی دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا،پڑھنا سکھائے گا، اُس کو آزادی(رہائی) مل جائے گئی‘‘۔ یہا ں پر تو بچوں کی پڑھائی کی اور دشمن کی یعنی تینوں کی بات ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں بات اپنے فرقے اور اپنے بچو ں کی تھی اور یہاں بات دشمن کے بچوں کی ہے، مگربات پڑھائی کی ہی ہے۔ آپ ؐ کا ہر عملِ خیر نہ صرف مسلمانوں کے لئے، بلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔بہت اچھی بات ہے کہ آپ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا عزم رکھتے ہیں، یقیناًایک بزدل، جاہل اور اَن پڑھ کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی انتقام ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ دشمن کے بچوں کو پڑھائیں گے تو وہ اپنے جاہل آباء سے خودبخود نفرت کریں گے اور ان کے نشانات مٹ جائیں گے۔ ایک باپ کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوگی کہ اس کی اولاد اس سے نفرت کرنے لگے اور یہ تکلیف، سانحہ پشاور کے شہداء کی ماؤں کے غم سے کہیں بڑھ کر ہے۔
دشمن کے بچوں کو پڑھانا انتقام کے علاوہ ایک انتہائی قابل ستائش عمل ہو گا۔ دشمن نے ایک خود ساختہ مذہب بنا رکھا ہے اور اسی کو ’’اسلام‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اسی مذہب کی تبلیغ اپنے بچوں میں کر رہا ہے۔ آپ ان کے بچوں کو اسلام کے صحیح تصور سے روشناس کروائیں گے تو اللہ بھی ہم سے راضی ہو گا اور انعام کی صورت میں ہمیں امن جیسی نعمت سے بہرہ ور کرے گا۔ یہ عمل اپنے آپ میں سُنّتِ انبیاء کا درجہ بھی رکھتا ہے۔اللہ نے ہماری طرف ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے، انہوں نے بھی انسانیت کو ہدایت کی جانب بلایا۔ یہ انسانی ہمدردی کا بھی اپنی نوعیت کا ایک عظیم واقعہ ہوگا کہ جو دشمن آپ کے جوانوں کے ساتھ میدان جنگ میں دست و گریباں ہے، آپ کے بے قصور شہریوں کو بلا جواز قتل کر رہا ہے، آپ کی عبادت گاہوں پر بمباری کر رہا ہے،جو دشمن آپ کے تعلیمی اداروں میں گھس کر اپنی سفاکیت اور ظلم کا مظاہرہ کر رہا ہے اور جو دشمن آپ کے بچوں کو یتیم اور بیٹیوں کو بیوہ کر رہا ہے اور میری مراد وہ دشمن ہے جو آپ کے بچوں کو ورغلا کر آپ ہی کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور آپ اسی کے بچوں کو تعلیم اور شعور کے بیش قیمت تحفے سے نوازیں گے۔
کیا، دشمن سے اتنا بدلہ کافی ہو گا اور کیا آپ کو اتنا آسان لگتا ہے کہ آپ دشمن کے بچوں کو اس کا مخالف کرکے ان کی برین واشنگ کر دیں گے، کیادشمن آپ کو اس چیز کی اجازت دے گا؟ جی نہیں! دشمن جنگ کرے گا، مزاحمت کرے گا اور پلٹ کر حملہ آور ہوگا اور اس مرتبہ اس کا حملہ شدید ہوگا، کیونکہ کوئی بھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے بچوں کو اس کے خلاف ورغلایا جائے۔۔۔ اگر آپ نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے تو اس کے لئے آپ کو اس قابل ہونا ہوگا کہ آپ اس کے ہر حملے کا مُنہ توڑ جواب دے سکیں۔ اس کے لئے آپ کو حقیقی منصوبہ سازی کرنا پڑے گی ، حقیقی منصوبہ بندی سے مراد ماضی کی طرح ایک اور اے پی سی یا مزید کمیٹیاں نہیں بلکہ آپ ماضی کی اے پی سیز کے فیصلوں پر عمل درآمد کریں، خصوصاً نیشنل ایکشن پلان پر۔ آپ کی صفوں میں دشمن کے حامی موجود ہیں جو وقت آنے پر ہر قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں، چاہے وہ مالی معاونت ہو یا کچھ اور۔۔۔ آپ کو دشمن کے حامیوں کا سراغ لگا کر ان تک پہنچنا ہو گا اور کارروائی کرنا ہو گی۔ آپ کو اپنی فوج پر اعتماد کا اظہار کرنا ہو گا ۔ کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو، لہٰذا قوم کو بھی افواج کے شانہ بشانہ کھڑاہونا ہو گا۔ آپ کی صفوں میں اتحاد کی بہت کمی ہے، آپ کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔اس کے بعد جواں مردی کے ساتھ، نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے میدان جنگ میں کود جائیں۔ اللہ کامیابی سے ہمکنار کرے گا اور اس عزم پر قائم رہیں :
’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘
اللہ ہماری مدد کرے گا۔آمین!!!